تحریر: سید تحسین احمد
شارٹ کٹ اور سستی سیاست کرکے بی جے پی اقتدار حاصل کرنےمیں کامیاب ہوئی اور تقریباً یہی کام مسلم سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں لیکن وہ مسلم ووٹ کو پولرائز کرنے میں بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوپارہی ہیں البتہ بی جے پی کے سیاسی عزائم کی تکمیل میں نادانستہ طور پر معاون ثابت ہو رہی ہیں۔ میں بھی اس کے حق میں ہرگز نہیں ہوں کہ مسلمان نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں کا دم چھلا بنی رہے، لیکن میرا یہ بھی خیال ہے کہ مسلم سیاسی رہنما کو جذباتی اور مطالباتی نعروں سے اوپر اٹھ کر ایک ایساpolitical discourse شروع کرنا چاہئے جس میں تکسیری سماج کے ہر فرد کے لئے یکساں مواد اور کشش موجود ہو۔
اس مقام کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے سیاسی رہنماوں کو مزدوروں، کسانوں، دلتوں، آدیواسیوں ، کنر سماج اور سیکس ورکرز کے مسائل کی سیاسی آواز بننی ہوگی ۔ نیز جل، زمین ، جنگل اور بھوک کے سنگین مسائل پر بھی مضبوط سیاسی اسٹینڈ لے کر مومنٹ چلانا ہوگا ورنہ ہم لوگ ملت، مسلم پرسنل لاء، یکساں سول کوڈ، بابری مسجد اور تین تلاق کو سیاسی اشو بنا کر چند سیٹ تو جیت سکتے ہیں لیکن ہندوستان کی سیاست میں بے وزن اور بے معنی ہوتے چلے جائیںگے۔ جس کا مشاہدہ ہم لوگ بخوبی کر رہے ہیں۔
اویسی صاحب مسلمانوں کے حقیقی پسند نہیں بلکہ مایوس کن حالات کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک تعداد ان کو اپنا رہنما چننے پر مجبور ہے ۔ مسلمانوں کے حالات کو بہتر بنانے کے بجائے اویسی صاحب اپنی سیاست کے لئے مسلمانوں کے یاس و ناامیدی کے حالات کو ایک بہترین ’اوسر‘ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ 60 سالوں میں کوئی ایساقابل فہم اور سنجیدہ رہنما پیدا نہیں ہوا جو مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم سماج کے کمزور طبقہ کی بھی ایک مضبوط آواز ہو۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ سیکولر پارٹی کی سیاسی ساکھ چاہے کتنی بھی کمزور ہوجائے لیکن اس کا متبادل غیر سیکولر سیاسی جماعت ہرگز نہیں ہوسکتی۔
(تبصرہ نگار سوشلسٹ پارٹی انڈیا دہلی اسٹیٹ کے صدر ہیں)