تحریر: قاسم سید
مسلم پرسنل لاء بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے مؤثر، بھروسہ مند ملت کے تمام مسالک مشارب کےمشترکہ پلیٹ فارم کی حیثیت سے اپنی الگ شناخت اور ساکھ رکھتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ حالات کے دباؤ اور طابع آزماؤں کی خواہشات کی تکمیل کی کوششوں اور ضرورت کے وقت خاموش رہنے کی پالیسی نے اس کی ساکھ کو متاثر ضرور کیا ہے مگر اب بھی اس کا وجود غنیمت ہے ، ممبران کی پیر انہ لسانی نئے خون کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے بورڈ جو بہت کرنا چاہتا ہے وہ کرپانے میں توقعات پر پورا نہیں اتر پا رہاہے اس کا احساس سب کو ہے وہ احتراماً کہنے سے گریز کرتے ہیں۔
بورڈ کے دائرہ کار کے بارے میں بھی بڑی الجھن رہی ہے۔ کب کون سی بات دائرہ کار میں آجائے یہ جاننا مشکل ہے مثلاً ماب لنچنگ جیسے حساس موضوع پر بورڈ نے بولنے سے احتیاط برتی کیونکہ یہ پرسنل لاء کے دائرےسے باہر ہے مگر جب وہ ملک وملت بچاؤ تحریک چلاتا ہے تو اس کا جواز فراہم کرلیا جا تا ہے ۔
ایک طویل عرصہ کے بعد بورڈ کا دو روزہ اجلاس کانپور میں ہو رہا ہے ۔ کورونا کی وجہ سے اس کے انتخابات بھی ملتوی ہوگئے اور میٹنگیں باضابطہ نہیں ہوسکیں۔ اس اجلاس میں بورڈ کو اپنا صدر، جنرل سکریٹری، متوفی، اساسی ومقاتی ممبران کی جگہ نئے ممبران کی نامزدگی کے ساتھ کاشی ومتھرا کی مساجد پر بدلتی صورت حال پر بھی غور کرنا ہے ۔
عام خیال یہ ہے کہ بورڈ میں بڑے پیمانے پر اوور ہالنگ کی ضرورت ہے تاکہ مشکل ترین چیلنج بھرے حالات میں بورڈ فعال رول ادا کرسکے اوراس کی پرانی ساکھ بحال ہو۔ نئے اساسی ممبران کے انتخاب میں گروپ بازی اور مسالک کی فروغ کی بجائے ایسے ارکان لائے جائیں جو بورڈ کے تئیں وفادارہوں۔ پیری ومریدی سے بالاتر ہوں اور اپنے لوگوں کو لانے کے لیے لابنگ نہ کی جائے۔ بدقسمتی سے ماضی میں ایسا ہو تا رہا ہے ۔ ارکان کی فہرست پر نظر ڈالیں تو ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی اس کا ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ مسلم سماج کے ہر طبقہ سےاہل فکر و دانش اوراسلام کے بنیادی اصولوں اور شرعی احکامات پر گہری نظر رکھنے والوں باشرع لوگوں کو آگے لایا جائے۔ بڑی حیرت ہوتی ہے کہ بورڈ کے ممبران میں ایسے بھی ہیں جو ہر روز صبح اٹھ کر اپنے چہرے کی ساخت کو درست کرتے ہیں، ایسے لوگ بھی اساسی ممبران میں ہیں جن کا شریعت و اس کی نزاکتوں کے فہم سے دور تک واسطہ نہیں ہے۔
علاوہ ازیں بورڈ میں اترپردیش ،بہار اور دہلی والوں کی اکثریت ہے ،جنوبی ہند کے متعدد علاقوں کی نمائندگی نہیں ہے ، جس سے عدم توازن اور عدم تناسب جھلکتا ہے اور بورڈ کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے ۔ امید کرنی چاہئے بورڈ نئے رنگ و روپ کے ساتھ ایسے ہر عدم توازن کو دور کرے گا۔
ماضی میں ضرورت اور مجبوریوں نے بورڈ پر سیاسی لیڈروں نے ایک طرح سے قبضہ کرلیاتھا اس میں ایک خاص پارٹی کے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی رہی ہے کہ سیاسی لوگوں کی موجودگی کا مقصدبورڈ کے فیصلوں کو ارباب اقتدار تک پہنچانا اور ان کے نفاذ کے لیے گنجائشیں پیدا کرنا ہے مگر سیاسی طابع آزماہر ایسے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہیں جو ان کی سیاسی تمناؤں کو پورا کرسکے۔ اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ بورڈاپنے مقصد میں کس حد تک کا میاب رہا اس کاجائزہ ضرور لیا جاتا رہا ہوگا۔
موجودہ صدر اور( کارگزار )جنرل سکریٹری اپنے عہدوں پر برقرار رہیں گے اس کا سو فیصد امکان ہے، حالانکہ مولانا رابع کبر سن کی آخری منزلوں میں اور مولانا خالد سیف اللہ ایک اچھے عالم دین۔ فقیہ اور مدبر ہیںمگر تین طلاق اوربابری مسجد کیس میں انہوں نے اپنے جو ہر دکھائے تھے اس کے کیا نتائج نکلے اس سے سب واقف ہیں۔ پرانی تلخ یادوں کو یاد کرنے سے صرف زخم ہرے ہوتے ہیں ۔ ماضی میں دباؤ پڑنے پر وہ اپنے کتنے بیان واپس لے چکے ہیں حو ان کو بھی یاد نہیں ہوگا۔ ایک اچھا لیڈر وہی ہوتاہے جو دباؤاور چیلنجوں کے وقت خود کو ثابت قدم رکھے اور لچک نہ آنے دئے۔ ان پر پہلے ہی بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔وہ توامارت شرعیہ کے امیر بھی بن سکتے تھے مگر عین وقت پر نام واپس لے کر بورڈ کو سکون کی سانس لینے کا موقع دیا۔ بورڈکو فعال بنانے کے لیے کتنا وقت نکال سکیں گے یہ دیکھنا ہوگا۔ نائب صدور میں مولانا کلب جواد اور مفتی ابوالقاسم کا نام موجودہ وقت میں ضرورت ہوگا۔ موجودہ وقت میں بورڈ کو ایک اچھے ترجمان کی ضرورت ہے جو اردو، انگریزی، ہندی تینوں زبانوں پر عبور رکھتا ہو اورشریعت سے بھی کما حقہ واقف ہو۔ فی الوقت یہ ذمہ داری بھی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے سنبھال رکھی ہے ۔
ترجمان کی دہلی سکونت کو ترجیح دی جانی چاہئے کیونکہ یہ میڈیا کا بھی دارالحکومت ہے۔ ترجمان کا موقع پر دستیاب ہونا اورمطلوبہ زبان میں بات کہنے کی قدرت رکھنا جیسی خصوصیات کو مدنظر رکھنا چاہئے ۔ ماضی میں ایسے لوگ ترجمان بنے ہیں ۔ آحری بات مسلم پر سنل لاءبورڈ جیسے ادارے کا ہیڈ کوارٹر بھی دہلی میں ہونا چاہئے ۔ شاید اس سے بورڈ کی سرگرمیوں کو مربوط نظام کےتحت لایا جاسکے گا۔ یہ چند معروضیات ہیں، گزارشات ہیں ۔ ان میں تنقید کے کنکر نہیں بلکہ اخلاص کے لالہ وگل کی خوشبو محسوس کر نی چاہئے۔ بورڈ امیدوں کا اکلوتا مرکز ہے امید ہے کہ بورڈ کے اجلاس میں ان ’نکات ‘ پر بھی غور وخوض کیا جائے گا۔