عبدالسلام عاصم
ہر قوم میں خواص کی بد اعمالیوں کی سزا عوام کو ملتی ہے۔ خواص بھی شاذ و نادر میں زد میں آتے ہیں لیکن اکثر اُن کی اکثریت ظالموں سے سمجھوتہ کر کے بچ جاتی ہے۔ تاریخ بشمول ماضی قریب کے اخباری دستاویزات ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں،جن کا اب باآسانی آن لائن مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے واقعات ہر سو /دو سو سال میں دہرائے جاتے ہیں۔ اِس حوالے سے دنیا کے ایک سے زیادہ خطوں کا عصری منظر نامہ بس کرداروں کے لحاظ سے مختلف ہے۔ وطنِ عزیز سمیت برصغیرمیں بھی کل کوئی اور پریشان تھا، آج کسی اور کو ہراسانی کا سامنا ہے۔’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘ کے حساب سے یہ منظر نامہ بھی ایک روزبدلے گا! لیکن کیا یہ تبدیلی پھر حسبِ سابق اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف گھومنے والے جھولے کی طرح سامنے آئے گی یا ارتقا کا سفربعض دیگر اقوام کی طرح ہمارے لئے بھی آگے بڑھے گا! اِس کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ ایسی کسی پیش رفت کے لئے پچھڑ کر رہ جانے والوں کو ہر حال میں عظمت رفتہ میں پناہ لینے کے دائرے سے باہر نکلنا ہوگا اور یہ مان کر،بلکہ سمجھ کر حقیقی علم حاصل کرنا ہوگا کہ اِس حصول کے ذریعہ ہی قومیں احساس محرومی سے باہر نکلتی ہیں۔ سرِدست ہمیں بس ایسی ممکنہ تبدیلی لانے کے بارے میں ابتدائی طور پر سوچنا شروع کرنے کا متحمل بننا ہے۔ ایسی تبدیلی ایکدم سے نہیں آتی۔ویسے بھی ہمیں تزویرات کی جگہ رد عمل نے جس طرح نرغے میں لے رکھا ہے اُس میں فوری طور پرکسی ایسی کایا پلٹ تبدیلی کی بات نہ کی جائے جس کی عملاً دور دور تک گنجائش کی راہ ہموار نہیں۔ مائیتھولوجی کو تاریخ کی طرح پڑھنے سے زندگی میں دنیاوی آسائشوں سے محروم قاریوں کو کایا پلٹ انقلاب کی ایک سے زیادہ کہانیاں تو مل جاتی ہیں لیکن اُن کی عملاً کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ سلسلہ کل کی طرح آج بھی جاری ہے۔ اس کے بہت حد تک ذمہ دار ہمارے وہ مذہبی، سماجی اور سیاسی قائدین ہیں جو اپنے محدود مفادات کو بچائے رکھنے کیلئے ہر بدترین سماجی خلل کے بعدیک جہتی اور ہم آہنگی کا اسٹیج شو کیا کرتے ہیں۔ میرے ایک صحافی دوست نے پچھلے دنوں ایک موضوعاتی بات چیت میں یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ’سماجی اور سیاسی کالم لکھنے والے کو ایک ایسے ڈاکٹر کی طرح ہونا چاہئے جو مرض کی تشخیص کے ساتھ علاج بھی بتائے‘۔ میں نے اُن کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے بس اس قدر اضافے سے کام لیا کہ’معالج کی تجویز کردہ دوا اور پرہیز کے نسخے پر بہر حال مریض کو ہی عمل کرنا ہو گا،ڈاکٹر کو نہیں‘۔ ذہین آدمی تھے، سمجھ گئے اور خود ہی کہا کہ ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں وہاں اِس تفہیم کی عام توفیق مشکل ہے کیونکہ کنڈیشنڈ ماحول میں ناگزیر طبی علاج کا حاجت مند بھی ٹوٹکے پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔ واقعہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی کوویڈ۔19سے گلوبل وارمنگ تک ہر خطرے کے حوالے سے نیک، صحیح اور عقلی مشوروں سے زیادہ سازشی تھیوریاں بکتی ہیں۔
باوجودیکہ ایکدم سے ہمت ہار جانا کسی طور ٹھیک نہیں۔ صحیح الفکر لوگوں کو اس رُخ پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت کا احساس دوسروں کو دلاتے رہنا ہوگا۔ بصورت دیگر اگر ہم ڈرائنگ روم سے میدان عمل تک بس رد عمل دکھانے میں ہی لگے رہے تو منزل تو درکنار کوئی نیا راستہ بھی نہیں ملے گا۔ حالات کو بدلنے کے رُخ پر لانے کیلئے لائحہ عمل کیا ہوناچاہئے اس پر اِس طرح غور کیا جائے کہ ایک دوسرے کی قابل عمل اور غیر قابل عمل تجاویز کوایک دم سے قبول و رد سے نہ گزار کر تشفی بخش طریق عمل اختیار کیا جائے تاکہ جس کی رائے مسترد کی جارہی ہو اُسے اور بہتر اور قابل عمل سوچ کی تحریک ملے، کسی طرح کی مایوسی نہیں۔ شاکی ماحول میں ویسے بھی کسی فریق سے فریق ثانی کا معقولیت کے مطالبے پر اڑے رہنے سے ماحول کی شدت اور بڑھتی ہے۔ اس لئے تزویراتی قدم اٹھانے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوچنا کوئی مشکل کام نہیں کہ آخر اعتدال پسند گھروں میں انتہا پسند، دہشت گرد اور ماب لنچر کیسے پیدا ہو جاتے ہیں! اِس پر بے لاگ غور کرنے سے کوئی بھی باشعور آدمی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ یہ انسانی زندگی کے تقدس پر عقائد کو ترجیح دینے اورمذہبی اور قومی جذبات سے جڑی جنگوں، یدھوں اور غزوات کو گلوریفائی کرنے کا شاخسانہ ہے۔ اِس کے خاطی ہم اکیلے نہیں، بعض دوسری اقوام بھی ہیں۔ تاریخ میں ایسی جتنی لڑائیوں کا ذکر ہے اُن کے دو طرح کے مرتبین ملیں گے۔ ایک وہ جو خاک و خون میں ڈوبی جیت کو ہی حق کی فتح دکھاتے ہیں اور دوسرے وہ جو اسے انسانی زندگی کے تقدس کی بدترین پامالی قرار دیتے ہیں۔وطن عزیز میں عصری منظر نامہ بدلنے کیلئے دونوں فرقوں میں افرادی طور پر کمزور فرقے کو ہی اِس رُخ پر زیادہ محتاط قدم اٹھانا ہوگااورعمل اور ردعمل کے روایتی دائرے سے باہر نکل کر حکمت اورخیر کے جذبے سے کام لینا ہوگا۔ حکمت اور خیر سے مراد ”مکرِمحمود“ ہے۔ ہمارے روایتی پدر سری سماج میں بہ انداز دیگر اس کی ایک مثال پہلے سے موجود ہے جہاں عورتوں کے مردوں سے معاملات کے انداز کو بعض روایتی حلقوں میں نہ صرف مکر سے تعبیر کیا جاتا ہے بلکہ ”مکرِ قبیح“ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ حقئیقی سائنسی علم کی روشنی میں ایسی سوچ سراسر غلط ہے۔ عورتیں قبیح طور پرمکار ہرگز نہیں ہوتیں بلکہ وہ مردانہ غلبے والے سماج میں اپنی بقا کیلئے مکرِ محمود سے کام لیتی ہیں۔ اِس دوٹوک اور واضح تفہیم سے محرومی ہی ہمارے سماج میں اُس مردانہ کمزوری کا سبب ہے جس کا علاج کل نہ تو لقمان حکیم کے پاس تھا نہ آج کا کوئی اشتہاری حکیم اپنے کسی ”شفا نہیں تو پیسے واپس” کے دعوے سے کسی مردے کو زندہ کر سکتا ہے۔ارتقا کے عہد بہ عہد سفر میں اب ہم بعض اقوام کی بے پناہ ترقی کے رازوں سے انُہی کی ایجادات کی بدولت فی لمحہ واقفیت کے عہد میں داخل ہو گئے ہیں۔ ایکسپوزر سے بھرے اِس عہد میں بھی بدقسمتی سے ملک کی دونوں بڑی ملتوں نے اپنے اعمال کو درست کرنے کے بجائے بدستور رسومات میں پناہ لے رکھی ہیں۔ ہم ہر سال راون کو جلاتے ہیں اور سفر حج کے تکمیلی مرحلے میں شیطان کو سنگسار کرتے ہیں لیکن ہم دونوں ہی ہندو اور مسلمان کہلانے والے پنجروں میں قید انسان کو آزاد نہیں کرا پاتے! تو کیا یہ عید اور دیوالی کے تہوار ہمارے احساسِ قید کو کم کرنے کی دوا ہیں؟ جن کی ہمیں ہر سال ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ہر حساس لیکن باشعور شخص کو غور کرنا چاہئے۔حالات کے تازہ موڑ سے گزرنے والی نسل کو اب مطلق ایسی کسی قیادت کی ضرورت نہیں جوصرف اس یقین کے ساتھ پیش روی کرے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے وہ دن نہیں رہے تو یہ دن بھی نہیں رہیں گے۔ گویا دُنیا گول ہے۔ دُنیابے شک گول ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سب یہاں بس نیچے سے اوپر اور پھر اوپر سے نیچے چکر کاٹنے والے کسی جھولے پر سوار ہیں۔ علمی تحقیق کے مطابق ہم سب اِس جہانِ فانی میں ارتقا کے سفر میں ہیں جو مقصدِ کُن کے رُخ پر ایک مسلسل تسخیری عمل ہے۔ ہمیں اس سفر میں گمراہ ہونے والوں کو راستہ دکھا نا ہے جو کسی طور آسان کام نہیں ہے۔ گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس) کا ہمارے لئے بظاہر استعمال جتنا آسان ہے، اُس کی بباطن ایجاد اُن کیلئے ہرگز آسان نہیں تھی جنہوں نے پڑھنے، لکھنے کے بعد سوچنے، سمجھنے اور تحقیق و جستو میں لگ جانے کو ترجیح دی۔ آج سائنس داں گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کیلئے اس کے قدرتی اسباب کا تجزیہ کرنے کے ساتھ اُن انسانی عوامل کا بھی جائزہ لے رہے ہیں جن کی یک رُخی نے دوسرے رُخ پر نقصان کا دائرہ بڑھایا ہے۔ اس جائزے میں انہیں یہ بھی پتہ چلانا ہے کہ جن قدرتی وسائل سے ترقی رخی استفادے کے کچھ منفی نتائج سامنے آئے ہیں، کیا اُنہی وسائل کا رُخ آتش فشاں پھٹنے، گردو غبار والے طوفان کے اٹھنے اورزلزلے اور سیلاب کی فطری محرکات کی شدت پر قابو پانے کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ سائنسدانوں کی اِس کوشش اور جستجو کو اِس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ جس طرح ہر دوا کے ذیلی نوعیت کے منفی اثرات بھی ہوتے ہیں اُسی طرح منزل رُخی راستے میں کچھ ایسے موڑ بھی آتے ہیں جو تجسس پسند ذہنوں کو گمراہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عالمی تمازت ایسی ہی گمراہی کا نتیجہ ہے۔ یہ گمراہی بہر حال کسی اندھی تقلید کے نتیجے میں سامنے آنے والی گمراہی کی طرح نہیں۔