تحریر: ڈاکٹر فیاض احمد رونیال
(لکچرر، شعبہ اردو گورنمنٹ وومن ڈگری کالج، انت ناگ، کشمیر)
بیسویں صدی کی ارود شاعری کے اُفق پر علامہ اقبالؔ ایک درخشندہ ستارہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس نے اپنے مختلف الجہات تصّورات سے اردو شاعری کی دنیا کو ایک نئی جلا بخشی۔ ان تصّورات میں تصّورِ خودی، تصّورِ عمل ،تصّورِ زماں ومکاں ،تصّورِ مردِمومن اور تصّور عشق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ موضوع کی نذاکت کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں یہاں پر اقبال کے تصّورِ عشق پر ہی اکتفا کرتا ہوں ۔
اقبالؔ کے نزدیک عشق ایک عطیہ الہیٰ اور نعمت ِ ازلی ہے۔اقبالؔ کے ہاں عشق اور اس کے مترادفات یعنی وجدان، خود آگہی ،باطنی شعور ، جنون ،محبت،دردوسوز ،شوق ،آرزومندی ،جستجوں ،مستی اور سر مستی کا ذکر جس تکرار اور شدّتِ احساس کے ساتھ ملتا ہے کسی اور موضوع کا نہیں ملتاہے۔محبت جسے کسی نے لطیف ترین حسِ کا نام دیا اور کسی نے اسے نور ِمعرفت سے تعبیر کیا ہے۔اقبالؔ نے اپنی ایک نظم ’’محبت‘‘ میں محبت کو اس طرح سے واضح کیا ہے۔
؎عروسِ شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذّتِ رم سے
؎قمر اپنے لباسِ نو میں بیگانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلم سے
؎ چمک تارے سے مانگی، چاندسے داغِ جگر مانگا
اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلفِ برہم سے
یہ ہے وہ محبت یاجذبہ عشق جو اقبال کے دائرہ فکر کا مرکزی نقطہ ہے۔ کائنات کی ساری رونق اسی کے دم سے ہے۔اقبالؔ سے قبل کی اردو اور فارسی شاعری میں عاشق پست مقام پر نظر آتا ہے۔ وہ دربدر مارا مارا پھرتا ہے،وہ مجنوں اور دیوانہ بن جاتا ہے۔غرض عشق اسے بے موت مار دیتا ہے۔عشق کے مصائب سے تنگ آکر عاشق پکار اٹھتا ہے۔
؎ سخت کافر تھا جس نے پہلے میر ؔ
مذہب عشق اختیار کیا
؎ ابتداء ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
(میرؔ)
؎ بلبل کے کاروبار میں ہے خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق ، خلل ہے دماغ کا (غالبؔ)
یعنی عشق کے لوازمات میں آہ و نالہ، فریاد،آرزو اور سخت کوشی وغیرہ شامل ہیں ۔ ان تکالیف کی وجہ سے عاشق وقت سے پہلے ہی اس دنیا سے مایوس ہو جاتا ہے۔یعنی عشق سبب ہے خواری کا یا باعث ہے موت کا ۔اقبالؔ کے یہاں عشق موت کا باعث نہیں بلکہ زندگی کی علامت ہے ۔ عشق سے فرد کی نظر میں بلندی اور قوت پیدا ہوتی ہے۔ اقبالؔ نے عشق زندگی کے لئے ضروری قرار دیا ہے۔اقبالؔ شروع سے ہی اس بات کے قائل رہے ہیں کہ عشق موت کو نہیں لاتا بلکہ زندگی کا پیمبر ہے۔ اس با ت کو اقبالؔ نظم ’’عشق وموت‘‘ میں کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں۔
؎ سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی
ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکار
؎ بقاکو جو دیکھا فنا ہوگئی
قضا بھی شکارِ قضا ہوگئی
؎ مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
اقبالؔ کا تصّورَ عشق دوسرئے شعراء کے تصّورِ عشق سے بالکل مختلف ہے۔ان کے نزدیک عشق فنا نہیں بل کہ زندگی کا ضامن ہے، جس سے زندگی کا ایسا قوی احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے تمام مادی اور خارجی بندشیں کمزور پڑجاتی ہیں۔ دراصل اقبالؔ نے عشق کو مادی حقائق پر روحانی حقائق کی برتری ثابت کرنے کے لیے اپنایا ہے۔ اقبالؔکے فلسفہ خودی کی تربیت اور استواری کا دارومدار بھی عشق کی رہنمائی پر ہے۔تصّوف میں عشق کی دو خاص نوعیتیں ہیں ۔ ایک ’’مجازی ‘‘اور دوسری ’’حقیقی‘‘ ۔ مجازی سے مراد وہ عشق ہے جس کا تعلق اسی دنیا سے ہے۔ اس کے برعکس حقیقی سے مراد وہ عشق ہے جس کا تعلق خداوندی سے ہو ۔عشق حقیقی سے پہلے مجاز سے دل لگانے اور اس میں خود کو فنا کر دینے کا نام عشق ِ حقیقی رکھا گیا ہے۔یعنی عشق حقیقی کا پہلا زینہ عِشق مجاز ہے۔عشق کے سلسلے میں یہ اس دور کی بات ہے جب علامہ ابناالعربی کے فلسفہ توحید کا زور تھا اور وحدت الوجود کے نظرئے نے مسلمانوں کو عملی زندگی سے بہت حد تک دور کر دیا تھا۔اقبالؔ نے اس نظرئے کی تردید کی اور وحدت الوجود کے نظریہ کو افلاطون اور ہندو فلسفہ حیات سے ماخوذ بتایا۔اس کے برعکس اقبالؔ نے زندگی اور عشق کا ایسا تصّور پیش کیاکہ اس سے زندگی اور زندہ دلی کے چشمے پھوٹ پڑے،سوئی ہوئی قوم جاگ اٹھی اور مردہ دل دوبارہ زندہ ہو گیا۔
؎ نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراںسے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی
؎اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوںمیںہے
سر آدم ہے ضمیر کن فگاں ہے زندگی
؎ یہ کاینات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادمٗ صدائے کن فیکون
غرض اقبالؔ نے زندگی کا ایک نیا لائحہ عمل پیش کیا۔ اقبالؔ کا عشق محبوب کے قرب ووصال کے سلسلے میں اتنا محتاط ہے کہ اگر اس کے وجود کا ذرہّ بھی خطرے میں ہو تو وہ اس قسم کے وصال کو قبول نہیں کرتا۔اقبالؔ وصال کے مقابلے میں ہجروفراق کو ترجیح دیتاہے۔
؎ عالم سوزوساز میں وصل سے بڑھ کر ہے فراق
وصل میں مرگِ آرزو ہجر میں لذتِ طلب
؎ گرمئی آرزو فراق ـ، لذت ِہاے وہو فراق
موج کی جستجو فراق ،قطرے کی آبرو فراق
ا قبالؔ کے یہاںعشق کا تصور اُن کے پیش رو شعراء سے مختلف ہے۔ان سے پہلے کے شعراء نے ذاتی تاثرات اور شخصی تجربے کی صورت میں عشق کی کیفیات کا بیان کیا ہے ۔ اس کے برعکس اقبالؔ نے ذاتی تاثرات سے بڑھ کرعام زندگی میں عشق کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اقبال ؔنے اپنے تصّور عشق کے بارے میں نکلسن کو ایک خط میں لکھا ہے کہ’’ حقیقتـــ میں عشق کا کام یہ ہے کہ عاشق ومشعوق کو متمیز کرکے اپنی اپنی جگہ انفرادی شخصیت اور اہمیت بخش دیـ۔‘‘
اقبالؔ نے عشق اور عقل کے موضوع کو بھی اپنے فلسفہ حیات کے طور پر استعمال کیا ہے وہ عقل یا علم پر عشق یا دل کی برتری کا احساس و عقیدہ رکھتے ہیں۔ اقبالؔ نے عشق کو آگہی اور خودآگہی کا سر چشمہ جا نا ہے بعض جگہ عقل کا مذاق بھی اُڑیا ہے ۔ ان کے مطابق عقل ہر مسلے میں کیوں ،کیا ، کہاں اور کیسے کے سوالات اُٹھاتی ہے اور حیقت شناسی سے محروم رہتی ہے ۔اس کے بر عکس عشق سودوزیاں کے چکر میں نہیں پڑتا ہے اور جو کچھ کرنا چاہتا ہے کر لیتا ہے اور حقائق تک پہنچ کرہی دم لیتا ہے۔ بعد میں عقل ودل کے امتیازات کا یہی احساس اقبالؔ کے فلسفہ خودی کا آلہ کار بن جاتا ہے ۔انھوں نے جہاں بھی عشق کی کار آفرینوں کا ذکر کیا ہے عموما ً عقل کی نا رسائیوں کے حوالے سے کیا ہے۔
؎ بے خطر کود پڑآ تشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
؎ مقامِ عقل سے آساں گذر گیا اقبال
مقامِ شوق پہ کھویا گیا یہ فرزانہ
؎ عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
؎ عشق سکون وثبات ،عشق حیات وممات
علم ہے پیدا سوال ،عشق ہے پنہاں جواب
لیکن اس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ اقبالؔ علم وعقل کا دشمن ہے۔ ان کا زاویہ فکر یہ ہے کہ حق رسائی کے لئے عقل کے مقابلے میں عشق زیادہ کار گر اور سود مند ہے۔ لیکن انسانی زندگی کی مادی ترقی میں علم وعقل کی بڑی اہمیت ہے۔البتہ روحانی ترقی جسے اقبالؔ حیاتِ انسانی کا اصل مقصود جانتے ہیں عشق کی رہبری کا محتاج ہے۔
؎ خِرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
اقبال نے ایک جگہ یہ بھی بتایا ہے کہ عقل وعشق میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ بلکہ عقل جب سوز سے ہمکنار ہوجاتی ہے تو عشق بن جاتی ہے۔ دراصل اقبالؔ کے نزدیک علم کی دو قسمیں ہیں۔ایک دانش ِبرہانی اور دوسری دانشِ شیطانی ۔اگر علم و عقل باطنی شعور سے آگاہ نہ ہوں اور صرف جسم پروری کا کام کر رہے ہوں تو یہ دانشِ شیطانی ہے۔اس کے برعکس علم وعقل روحانی حقائق سے آشنا ہوں اور منزل تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرکے انسان کے دل میں اعلیٰ مقصد کے لیے آرزو پیدا کرتے ہوں تو یہ دانشِ برہانی ہے اور اسی دانشِ برہانی کا دوسرا نام عشق ہے۔
مجموعی طور پر یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ اقبالؔ کا تصّورِ عشق اردو اور فارسی کے دوسرے شعراء سے بہت مختلف ہے۔اقبالؔ کے نزدیک عشق محض دل سوزی،جنسی جذبے، فنا یا محدود کو لا محدود میں گم کردینے کا نام نہیںہے ۔ان کے یہاں عشق نام ہے ایک عالمگیر قوت حیات کا ،جذبہ عمل سے سرشاری کا ،حصول مقصد کے لیے بے پناہ لگن کا اور عزم و آرزو سے آراستہ جہد مسلسل کا:۔
؎عشق دمِ جبرئیل ،عشق دمِ مصطفیٰ
عشق خدا کا رسول،عشق خدا کا کلام
یہ ایک نہایت ہی وسیع موضوع ہے ۔اس کا محاکمہ کرنا مجھ ناچیز کے بس کی بات نہیں۔اس لیے موضوع کا خاتمہ غالب کے اس شعر کے ساتھ کرتا ہوں :۔
؎ ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے