تحریر: مسعود جاوید
دنیا اور اقوام عالم سیڑھی بہ سیڑھی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور ہم مسلمانان ہند تنزلی کی طرف۔
80,70 کی دہائی تک مسلمانوں کی آواز ایوان اقتدارتک پہنچانے کے لیے ان کے اپنے اردو روزنامے، سہ روزے، ویکلی بائی ویکلی اخبارات ہوتے تھے ۔
مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو ، مختلف اقسام کے حقوق کی دستور ہند میں دی گئی ضمانت کے خلاف ملک میں کسی بھی سنگین صورت حال سے نمٹنے کے لئے مسلم مجلس مشاورت کا پلیٹ فارم ہوتا تھا، جہاں ملی تنظیموں کے قائدین، ملکی سیاست میں اثر و رسوخ رکھنے والے دانشوران، مسلم ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی اور معتبر صحافی حضرات سر جوڑ کر بیٹھتے تھے، وفد تشکیل دی جاتی تھی پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کرتے تھے۔ صدر جمہوریہ، وزیراعظم، وزیر داخلہ اور دیگر متعلقہ وزراء سے ملاقات کرتے تھے۔ میمورینڈم پیش کرتے تھے اور پریشر بناتے تھے کہ متاثرہ علاقوں کے انتظامیہ کو ہدایت دیں کہ وہ جانبداری سے کام لئے بغیر امن و امان فی الفور بحال کرے۔ مجرموں کو سزا دلانے کے لیے ضروری کارروائی کرے اور قانون کا دبدبہ بحال کرے۔
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر جمہوری ممالک میں اپنے احتجاج درج کرانے اور حکومت کو دستور و قانون کی روشنی میں بلا تفریق مذہب ذات برادری کام کرنے کے لئے پابند بنانے کا معروف و مسلم طریقہ کار مذکورہ بالا نمائندگی، وفد، ملاقات، میمورینڈم، پریس کانفرنس ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اقوام عالم کے طور طریقوں کے برعکس ہم نے انفارمیشن ٹیکنالوجی ، دن بہ دن ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ترقی اور کام کرنے والوں کے لئے سہولیات میسر کرانے والے فیلڈ سے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا ہے۔
ہاں یہ صحیح ہے کہ اکثریتی فرقہ کے مٹھی بھر لوگ مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں لیکن ان کو نظر انداز کر کے ہم ان کے دائرے میں روز بروز اضافہ میں مددگار ہو رہے ہیں۔
ہر ایسی حرکت کو الیکشن سے جوڑ کر دیکھنا اور حکومت اور اپوزیشن سے بات کرنے سے گریز کرنا مستقبل کے لئے ناسور بننے والا ہے۔
یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کی حفاظت کا نہیں ہے یہ ملک اور دستور کی حفاظت کا ہے۔ اس لئے غیر مسلم ذمہ دار شہریوں اور انصاف پسند سیکولرازم اور جمہوریت میں یقین رکھنے والوں کو ساتھ لے کر ہر چھوٹے بڑے شہر میں سٹیزن فورم تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ عوام کو متنبہ کرنے کی ضرورت ہے اور ملک و دستور کے تئیں بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)