مشرقی وسطیٰ کی جنگی صورتحال پر ماہرین نے اسرائیل کےلیے خطرے کی گھنٹی بجادی اور کہا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس جو لڑائی چاہتی ہے وہ تو ابھی شروع ہوئی ہے۔واشنگٹن میں موجود مشرقی وسطیٰ کے معاملات کے ماہر سینئر اسکالر حسین ابیش نے امریکی نشریاتی ادارے کو اسرائیل اور حماس میں ایک سال سے جاری جنگ کا نیا تناظر پیش کردیا
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں شہید ہونے والے حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار کی موت سے اسرائیل کے خلاف برسوں سے جاری مزاحمت میں شدت آسکتی ہے۔
حسین ابیش نے مزید کہا کہ حال میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنائے جانے کے بعد مزاحمتی تنظیم نے اپنا طریقہ کار بدل دیا ہے، دوسری طرف اسرائیل نیم روایتی جنگ لڑ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل دراصل وہ لڑائی سمجھنے سے قاصر ہے، جو حماس چاہتی ہے، غزہ میں زمینی سطح پر نیتن یاہو کی فوج کو کھلی بغاوت کا سامنا ہے، اس صورتحال میں کہہ سکتے ہیں حماس کی جنگ تو ابھی شروع ہوئی سینئر اسکالر نے یہ بھی کہا کہ حماس پہلے ہی گوریلا اور جنگجوؤں کے منظم گروپ کی شکل اختیار کرچکی ہے، وہ سنگین حالات میں بھی کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، وہ مرنے کےلیے بالکل تیار ہیں، ان کے ہتھیار چھوٹے اور گھریلو ساختہ ہیں۔حسین ابیش کا کہنا تھا کہ غیر ریاستی گروہوں سے لڑنے والی دوسری قوموں کو بھی اسی نوعیت کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر افغانستان میں روس اور ویتنام میں امریکا کو یہی صورتحال درپیش رہی ہے۔اوبامہ انتظامیہ کے اہم رکن فرینک لوونسٹائن نے کہا کہ اسرائیل یحییٰ السنوار کی موت کے بعد خود کو بااختیار محسوس کررہا ہے، لیکن وہ اس وہم سے نکلے کہ حماس کو شکست ہوگئی ہے، اس طرح نظریہ تھوڑی مرتا ہے۔