تحریر:ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
دن بہ دن بڑھتے ہوئے حادثات کی وجہ سے پورے ملک میں خصوصا اقلیتی و پسماندہ طبقات میں خوف وہراس کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ تحفظ کا احساس اگر کم ہونے لگے تو سماج کی ترقی کے لئے کام کرنے والا ذہن اپنے اور اپنے اہل وعیال کی حفاظت پر ہی مرکوز رہ جاتا ہے۔ خوف و ہراس کے اس خطرناک ماحول سے سماج کا نکلنا ضروری ہوتا ہے، جس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام ہی حادثات و واقعات جن سے انسانی ذہن و دماغ خوفزدہ ہو ان کی روک تھام کی جائے۔ روک تھام کے لئے قانون اور دستور جو طریقہ کار بتاتا ہے اس پر عمل کیا جائے۔
امن و امان قائم رکھنے کی کوشش اور ایسے تمام ہی واقعات کی روک تھام لازمی ہے جن سے ملک و سماج کے کسی بھی طبقے میں بے چینی پیدا ہو۔ہر سماج کی بنیادی ضرورت ہے کہ سماج میں رہنے والے افراد کے جان و مال محفوظ ہوں۔کسی بھی انسان کی زندگی یا اس کے مال و جائداد کی حفاظت کی بنیادی ذمہ داری حکومت اور حکومتی اداروں کی ہوتی ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماج کے ہر ہر فرد کو بلا تفریق مذہب و ملت، رنگ و نسل تحفظ فراہم کرے۔ تاہم حکومت و سماج کے بھی ایک طبقے کا سوچنا ہے کہ حکومت کے لئے ممکن نہیں ہوتا ہے کہ وہ سماج یا ملک میں ہر سماج دشمن عناصر پر ہر لمحہ نظر رکھ سکے، یعنی حکومت کے لئے ممکن نہیں ہے کہ تمام ہی حادثات کو واقع ہونے سے روک سکے۔ عموما حادثہ ہونے کے بعد پولیس موقع واردات پر پہنچتی ہے، پہنچنے کے بعد ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور ایک کرمنل کیس کی لامتناہی شروعات ہوتی ہے جس کے اپنے خدوخال ہوتے ہیں۔
ان حادثات کو روکنے میں ایک بہت ہی اہم رول سماج کا ہوسکتا ہے اگر سماج سیلف ڈیفینس کے قانونی حق کا استعمال کرنے لگے۔ ہمارے سماج کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم کو بطور شہری اپنے دستوری و قانونی حقوق سے واقفیت نہیں ہوتی ہے۔ کسی بھی سماج یا ملک میں سماجی امن و آشتی کے قیام میں سماج کے ایک ایک فرد کا اہم رول ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کی تدوین کے دوران اس بات کا پاس ولحاظ ہر ملک میں رکھا گیا کہ اگر کسی شخص کی جان یا مال پر کسی طرح کا حملہ ہو تو متاثر شخص یا موجود افراد کو قانون یہ حق دے کہ وہ اپنے جان و مال کی حفاظت کے لئے بذات خود متاثر ہونے والا شخص یاوہاں موجود افراد کسی بھی قسم کے استحصال کے خلاف حفاظت کے مقصد سے ضروری طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ہر فرد کا تحفظ بہت اہم ہے اسی وجہ سے ہر شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی خاص حالات میں مخصوص اجازت قانون کے ذریعے دی گئی ہے۔
انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) یعنی تعزیرات ہند کی دفعات 96 سے 106 کا تعلق کسی بھی شخص یا پراپرٹی کے ذاتی دفاع کے حق سے متعلق ہیں۔ دفعہ 96 کے تحت کچھ بھی جرم کے زمرے میں نہیں آئے گا اگر وہ سب ذاتی دفاع کے حق کو استعمال کرتے ہوئے کیا گیا ہو۔ لیکن دفعہ 96 میں فراہم کردہ اختیارات کا استعمال کب نہیں کیا جاسکتا ہے یہ حدود ہمیں دفعہ 99 میں بتائی گئی ہیں۔ آئی پی سی کی دفعہ 99 کے مطابق اگر آپ کے اوپر یا کسی دوسرے کے اوپر کئے جانے والے حملے سے جان جانے یا شدید زخمی ہونے کا ڈر یا معقول وجوہات موجود نہ ہوں تو دفعہ 96 کے تحت آپ اپنے دفاع میں ایسا دفاع نہیں کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں حملہ آور کی جان چلی جائے، لیکن قانون یہ بھی مانتا ہے کہ جب کسی شخص کی زندگی خطرے میں ہو تو وہ اپنے جوابی حملے میں طاقت کا استعمال ناپ تول کر نہیں کرسکتا ہے۔ اس حق کے استعمال کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کے پاس پولیس سے مدد لینے کے مواقع حاصل نہ ہوں۔ اگر کوئی پبلک سرونٹ اپنی ڈیوٹی کے دوران مناسب سمجھ کرکوئی قدم اٹھائے تو اس کے ان قدامات کے خلاف ذاتی دفاع کا حق استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دفعہ 97 آئی پی سی کے تحت ہر شخص کو یہ حق ہے کہ وہ دفاعی حق کا استعمال اپنی ذات یا کسی دوسرے کی ذات کے تحفظ کے لئے کسی بھی قسم کے جسمانی حملے کے خلاف کرسکتا ہے۔ اور اپنی یا کسی دوسرے شخص کی پراپرٹی کے تحفظ کے لئے کرسکتا ہے۔ پراپرٹی پر ہونے والے کسی بھی حملے کے لئے ضروری ہے کہ وہ چوری ڈکیتی یا فساد جیسے کسی جرم کے زمرے میں آتا ہو۔ یہاں بھی دفعہ 99 میں بیان کی کئی حدود کا خیال کرنا ضروری ہے۔ دفعہ 98 کے تحت ذاتی دفاع کا حق اس وقت بھی حاصل ہوگا اگر حملہ آور پاگل ہو یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو وغیرہ۔
پرائیویٹ ڈیفنس یا ذاتی تحفظ کا حق کے تناظر میں انڈین پینل کوڈ کی اہم ترین دفعہ ہے سیکشن 100، جس کے تحت سات ایسی صورتیں ہیں جہاں حملہ آور کی دفاعی حملے کے نتیجے میں موت بھی واقع ہوجائے تو ذاتی تحفظ کے تحت وہ قتل کا جرم تسلیم نہیں کیا جائے گا۔(1) ایسا حملہ جس کے نتیجے میں موت واقع ہونے کے قوی امکانات موجود ہوں اگر جوابی حملہ یا دفاعی حملہ فورا نہیں کیا جائے۔ (2) ایسا حملہ جس کے نتیجے میں شدید جسمانی چوٹیں واقع ہونے کے قوی امکانات موجود ہوں اگر جوابی حملہ یا دفاعی حملہ فورا نہیں کیا جائے۔(3) اگر حملہ آبروریزی(ریپ) کی غرض سے کیا گیا ہو۔ (4) اگر حملہ غیرفطری انسانی ہوس کی غرض سے ہو۔ (5) اگر حملہ کسی کو اغوا یا غیرقانونی قید کی غرض سے کیا گیا ہو۔ (6) اگر حملہ غیر قانونی طور پر جبری قید کی غرض سے کیا گیا ہو اور ایسا محسوس ہوکہ وہ اپنی آزادی کے لئے پبلک اتھارٹیز تک رسائی حاصل نہیں کرسکے گا۔اور (7) حملہ آور کسی کے اوپر تیزاب یعنی ایسڈ سے حملہ کرے یا ایسڈ سے حملہ کرنے کا ڈر ہو جس کے نتیجے میں شدید جسمانی چوٹوں یا زخم کا خدشہ موجود ہو اگر فوری دفاعی حملہ نہ کیا جائے۔
دفعہ 101 کے تحت اگر حملے کی نوعیت دفعہ 100 میں بیان ساتوں صورت میں سے نہ ہو تو ایسا حملہ دفاعی حق کے تحت مناسب نہیں ہے جس سے حملہ آور کی جان چلی جائے۔ تاہم دفعہ 99 کا خیال رکھا جائے گا۔جب کہ دفعہ 102 کے مطابق ذاتی دفاع کا حق اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک کہ خطرہ یا خطرے کی دھمکی اور ڈر موجود رہے۔ یعنی جب تک آپ کو یا کسی دوسرے شخص کو جسمانی یا مالی خطرات لاحق ہوں یہ آپ کا حق اور بنیادی فرد ہے کہ آپ قانونی طور پر اپنے یا سماج کے کسی بھی شخص کے تحفظ کے لئے قانون ہاتھ میں لے کر دفاعی حملہ کریں۔
ہمارے ملک میں ہمارا دستور بھی آرٹیکل 21 کے تحت ہر شخص کو انسانی اقدار کے ساتھ ایک آزاد زندگی گزارنے کا پورا پورا حق دیتا ہے۔ یہ آزادی اور یہ حقوق ہماری بہت سی ذمہ داریاں بھی طے کرتے ہیں۔ ہماری اپنی ذات و زندگی کے لئے، ہمارے سماج اور ہمارے ملک کے لئے۔ آج اگر پورے ملک میں کچھ شر پسند عناصر ظلم وستم کی وارداتیں انجام دے رہے ہیں تو یقینا اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ ہمارے دستور اور ہمارے قوانین نے ہمارے اوپر ذمہ داری ڈالی ہے کہ یہ جو قوانین بنائے گئے ہیں ان کی بالادستی کی مکمل ذمہ داری ہمارے پورے سماج کی بھی ہے۔ اگر مٹھی بھر شرپسند دن دہاڑے سڑک پر کسی لڑکی کے اوپر تیزاب پھینک دیتے ہیں یا کسی معصوم کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرتے ہیں تو کوئی روکنے یا پولیس کو انفارم کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتا ہے۔ ہمارے قانون نے ہم سب کو اپنی اور دوسرے شہریوں کے تحفظ کا علمبردار بھی بنایا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی اور دوسرے شہریوں تک ان اہم قانونی معلومات کو پہنچائیں۔ قانون سے واقفیت ہمارے سماج میں بیداری پیدا کرنے میں اہم رول ادا کرے گی۔ کتنا افسوس ہوتا ہے تماش بینوں کا ایک بڑا ہجوم کھڑا تماش بین بنا رہتا ہے اور ان کے سامنے چند افراد آتے ہیں اور بھرے بازار یا چلتی ہوئی سڑک پر کسی کو بھی اپنے عتاب کا شکار بناکر چلے جاتے ہیں۔ ہر ہر شہری کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر آپ میں سے ایک آدمی بھی بھیڑ سے الگ نکل کر کمزور کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو ایک ایک کرکے بہت سے معاون و مددگار آپ کو مل جائیں گے، لیکن اگر آج آپ نے ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنا دروازہ اور کھڑکیاں بند کرلیں تو کل آپ کے لئے بھی کوئی آگے نہیں آئے گا۔ قانون کے پاسدار بنیں گے تو قانون آپ کی حفاظت کرے گا، آخر سوچئے کہ پوری دنیا کے قوانین تقریبا ایک جیسے ہی ہیں لیکن ان کا نفاذ ہمارے ملک میں اتنا کمزور کیوں ہے؟ یقینا اس کی وجہ ہمارا سماجی ڈھانچہ ہے جو قانون کی مدد سماجی سطح پر کرنے میں پوری طرح ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہمیں ایک اچھے سماج کی نشونما میں ایک ذمہ دار اور سنجیدہ کردار ادا کرنا ہی ہوگا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)