فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے چیف یحیٰ سنوار فلسطینی ریاست کے قیام کا ذریعہ مسلح جدوجہد ہی سمجھتے ہیں، وہ غزہ کی سرنگوں میں خفیہ طور پر سرگرم ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق 62 سالہ یحیٰ سنوار کی اپنی تنظیم پر گرفت مضبوط ہے اور وہ اب بھی غزہ کے سرنگوں کے نیٹ ورک میں خفیہ طور پر سر گرم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملوں اور صہیونیوں کی جانب سے جوابی کارروائی کے باوجود یحیٰ سنوار مسلح جدوجہد کو ہی فلسطینی ریاست کے قیام کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔حماس کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کے حملوں میں 1,200 افراد ہلاک ہوئے اور 250 لوگوں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں اسرائیل نے وسیع پیمانے پر جوابی کارروائی کی، اور ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کرکے لاکھوں لوگوں کوبے گھر کیا جاچکا ہے
اسرائیلی فوج کی جانب سے اس دوران حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ اور ان کے خاندان کے افراد کو بھی شہید کیا گیا، جبکہ لبنان میں حسن نصراللّٰہ کو بھی بمباری کے دوران شہید کیا گیا ہے۔
خبر ایجنسی کے مطابق دونوں طرف ہونے والی تباہی اور مصائب کے باوجود سنوار کی حماس پر گرفت مضبوط ہے اور وہ اب بھی غزہ کے سرنگوں کے نیٹ ورک میں خفیہ طور پر سرگرم ہیں، جبکہ وسیع پیمانے پر تنازعے نے خطے میں کشیدگی کو بڑھا دیا ہے، جس سے ایران اور اس کے اتحادی بھی شامل ہو گئے ہیں۔
یحییٰ سنوار کی قیادت جو ان کی سخت پرورش اور اسرائیلی قید کے تجربات سے تشکیل پائی، عسکری تصادم کو فلسطینی علاقوں کی آزادی کا واحد راستہ سمجھتی ہے، ان کے پیشرو اسماعیل ہنیہ کے جولائی میں تہران کے دورے کے دوران اسرائیلی حملے میں شہادت کے بعد انہیں اسلامی تحریک کے مجموعی رہنما کے طور پر منتخب کیا گیا تھاغزہ کے نیچے بنی بھول بھلیاں سرنگوں کے بارے میں کام کرنے والے دو اسرائیلی ذرائع نے بتایا ہے کہ یحیٰ سنوار اور ان کے بھائی جو ایک اعلیٰ کمانڈر بھی ہیں، اب تک اسرائیلی حملوں میں بچ گئے ہیں، جس میں مبینہ طور پر ان کے نائب محمد دیف اور دیگر سینئر رہنما مارے گئے ہیں۔یحیٰ سنوار رازداری سے کام کرتے ہیں، مسلسل حرکت کرتے رہتے ہیں اور غیر ڈیجیٹل مواصلات کے لیے قابل اعتماد میسنجر کا استعمال کرتے ہیں، وہ 7 اکتوبر سے عوام میں نظر نہیں آئے۔یحیٰ سنوار کی اپنے لیے اور فلسطینی عوام دونوں کے لیے ایک مقصد کے نام پر مصائب کے لیے اعلیٰ رواداری اس وقت ظاہر ہوئی تھی جب انھوں نے 2011 میں غزہ میں قید ایک مغوی اسرائیلی فوجی کےلیے 1,027 قیدیوں کے تبادلے کے لیے بات چیت میں مدد کی۔