لکھنؤ :
مئی کے وسط میں جب کورونا کا انفیکشن عروج پر ہوگا ، تب یوں تو تمام ریاستیں بری طرح متاثر ہوں گی، لیکن ان میں بھی اترپردیش جیسی بڑی آبادی والی ریاستوں کی حالت زیادہ سنگین ہوگی۔ یہ بات وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے جائزہ اجلاس میں پیش کردہ پریزنٹیشن میں کہی گئی۔
نیتی آیوگ کے ممبر ڈاکٹر وی کے پال کے ذریعہ پیش کی گئی اس پریزنٹیشن میں انفیکشن کے عروج پر ہونے کا وقت مئی کا وسط بتایا گیا جو آئی آئی ٹی کانپور نے اپنے حساب سے نکالا ہے۔ پریزنٹیشن کے مطابق مئی کے وسط تک روزانہ پانچ لاکھ یا اس سے زیادہ معاملات آسکتے ہیں۔ اس کے بعد انفیکشن کم ہونے لگے گا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ریاستوں میں ہیلتھ سسٹم ایسا نہیں ہے کہ صورتحال سے نمٹا جاسکے۔ سب سے بدترین صورتحال ان ریاستوں میں ہوسکتی ہے جہاں آبادی بہت زیادہ ہے۔
پریزنٹیشن کے اختتام پر یہ کہا گیا ہے کہ ٹیم انڈیا کورونا کی دوسری لہر سے لڑ کر کامیابی حاصل کرے گی، لیکن ایسا کہنے کے پہلے جو اندازہ لگایا گیا ہے وہ خوش آئند نہیں ہے۔ اس میں دس ریاستیں جہاں پر انفیکشن بہت زیادہ ہے ، وہاں کے طبی بنیادی ڈھانچوں میں کمیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ دس ریاستیں ہیں مہاراشٹر ، دہلی ، یوپی ، چھتیس گڑھ ، کرناٹک ، کیرل ، تمل ناڈو ، مدھیہ پردیش ، راجستھان اور گجرات ۔ ان میں یوپی ، مہاراشٹر اور دہلی کے بارے میں توقع کی جارہی ہے کہ رواں ماہ اپریل کے آخر تک انفیکشن کے معاملات میں ایک بڑا اچھال آئےگا۔ یوپی میں انفیکشن کی تعداد 1.19 لاکھ اور دہلی میں 67 ہزار سے زیادہ جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر پال نے لکھا ہے کہ انفیکشن میں اضافے کے پیش نظر کسی بھی ریاست کا طبی ڈھانچہ بہتر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی میں تبدیلی کرنے میں تاخیر ہوئی تو صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔ بعض دوائیں اور آکسیجن کی قلت میں درپیش مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئےانہوں نے یاد دلایا کہ اس وقت ہندوستان یومیہ انفیکشن معاملات میں دنیا میں سب سے آگے ہوگیا ہے۔
انڈین ایکسپریس نے ڈاکٹر پال سے پریزنٹیشن کے حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس نے نہ تو فون کا جواب دیا اور نہ ہی میسجز کا۔ ڈاکٹر پال میڈیکل ایمرجنسی مینجمنٹ کے لئے تشکیل افسران کے ایک بااختیار گروپ کے سربراہ ہیں۔