تحریر:کلیم الحفیظ -نئی دہلی
دو جنوری کو ہمارے وزیر اعظم میرٹھ میں فرما رہے تھے کہ خواتین کو ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔جب کہ ایک جنوری کو بلی بائی ایپ پر بھارت کی سیکڑوں خواتین کی عزت کو نیلام کیا گیا تھا۔شاید ہمارے وزیر اعظم نے اس معاملے کو اس لیے اہم نہیں سمجھا کہ ان خواتین کا تعلق مسلم طبقے سے تھا۔لیکن وزیر اعظم تو مسلم خواتین کے بڑے خیر خواہ ہیں ،انھوں نے انھیں تین طلاق سے آزادی دلوائی ہے ۔جن چندمسلم خواتین نے تین طلاق پر مودی جی کا شکریہ ادا کیا تھا اب انھیں یہ ضرور احساس ہوگیا ہوگا کہ مودی حکومت مسلم خواتین کی کتنی خیر خواہ ہے۔اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر سیاست کرنے والے کبھی بھی اورکسی بھی مسلم طبقے کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے ۔اگر وہ سلام بھی کریں گے تو منافقانہ سلام ہی کریں گے۔
نئے سال کے پہلے دن گٹ ہب پر کسی نے ایپ بنایا اور مسلم خواتین کی تصاویر اپ لوڈ کردیں ،اسی کے ساتھ اس نے ان کو نیلامی کے لیے پیش کرکے لکھ دیا’’ دی ڈیل آف ڈے‘‘۔گٹ ہب سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر کوئی شخص بھی ایپ بنا سکتا ہے ۔ابھی یہ تو معلوم نہیں ہوا کہ یہ گندی حرکت کس نے کی ہے اوروہ کس ملک کا باشندہ ہے؟لیکن یہ حرکت اتنااشارہ ضرور کررہی ہے کہ اس کا تعلق کسی فاشسٹ تنظیم سے ہے ۔جس کا مقصد مسلم خواتین کو بے آبرو کرکے گھروں میں قید رہنے پر مجبور کرنا ہے۔دراصل گزشتہ تین چار سال کے عرصے میں مسلم خواتین نے ہمت دکھائی ہے ۔بعض میدانوں میں انھوں نے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔تعلیم کے میدان میں وہ آگے بڑھی ہیں ۔میڈیا میں بیباکانہ انداز انھوں نے دکھایا ہے ۔سوشل ایکٹیوزم میں بھی خواتین نے حاضری درج کرائی ہے ۔اگرچے ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ ہر میدان میں دو ہندسوں تک بھی نہیں پہنچتی لیکن وہ طاقتیں جو زبان بند کرنے میں مہارت رکھتی ہیں ،انھیں یہ خوف ستانے لگاہے کہ اگر مسلم خواتین اسی طرح آگے بڑھتی رہیں اور انھیں نہ روکا گیا تو مسلم قوم بیدار ہوجائے گی ۔شاہین باغ کے نام سے پورے ملک میں جو احتجاج ہوئے،اس نے مسلم خواتین میں سیاسی بصیرت بھی پیدا کی اور ہمت اور حوصلہ بھی پیدا کیا،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احتجاج میں تعلیم یافتہ لڑکیوں نے جو ہمت دکھائی اس نے باطل کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کردیا ۔اس لیے باطل اب اوچھی حرکتوں پر اتر آیا ہے۔
بلی بائی ایپ ہو یا ایک سال قبل سلی بائی ایپ ہو ۔یا سوشل میڈیا پر اس طرح کی حرکتیں ہوں یہ کسی جاہل انسان کے بس کی بات نہیں ۔یہ کام اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہی کرسکتا ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ کہاں جارہا ہے۔پرانے زمانے میں غریب اور ان پڑھ لوگ جرائم کرتے تھے ۔لیکن نئے زمانے میں اعلیٰ دماغ اور مال دار لوگ جرائم کرتے ہیں ۔خواہ وہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال ہو یا لوگوں کے اکاو ٔنٹ ہیک کرکے ان کا غلط استعمال ہو۔پرانے زمانے میں کوئی مجرم ایک یا چند افراد کو ہی نقصان پہنچا سکتا تھا۔لیکن نئے زمانے میں پورے پورے ملک اور قوم متائثر ہوجاتی ہے۔بلی بائی ایپ کا یہ گھنائونا عمل کسی مہذب معاشرے سے میل نہیں کھاتا۔ایک وہ بھی زمانہ تھا جب خواتین کا احترام ان کا مذہب دیکھ کر نہیں بلکہ ان کی جنس دیکھ کر ہوتا تھا۔گائوں کی بہن بیٹی سب کی بہن بیٹی ہوتی تھی ،اور اب بیٹیاں اور بہنیں بھی مذہب میں تقسیم ہوگئیں ہیں ۔اس لیے کہ اس وقت ملک پر جو لوگ حکمرانی کررہے ہیں ان کانظریہ ہی نفرت پر مبنی ہے۔ان کے یہاںکھلے عام ہندو لڑکوں کو اکسایا جاتا ہے کہ مسلمان لڑکیوں کو بھگاکر شادی کریں۔ان لڑکوں کو انعامات دینے کی بات کی جاتی ہے۔دھرم کے نام پر ایک خاص مذہب والوں کو قتل کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے ۔صاف صاف کہا جاتا ہے کہ بھارت کو محفوظ رکھنا ہے تو مسلمانوں کو مارنا ہوگا۔بلی بائی ایپ پر مسلم خواتین کی تصاویر کی نمائش اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
یہ حرکت قانون نافذکرنے والوں کے لیے بھی قابل توجہ ہے ۔ملک میں قانون موجود ہے ۔جو ان جرائم پر سزا دیتا ہے۔لیکن قانون بھی فاششزم کے ہاتھوں کا کھلونا بن گیا ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ دیکھتے ہیں کہ معاملہ کس فرقے اور مذہب سے متعلق ہے ۔پورا پولس کا نظام اس معاملے میں پہلے بھی بدنام تھا لیکن پہلے کچھ بھرم باقی تھا لیکن اب تو صاف ہوگیا ہے کہ اس ملک میں قانون اور انصاف کے دروازے مسلمانوں پر بند کردیے گئے ہیں ۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک سال گزرگیا اور سلی ڈیل ایپ پر آج تک کارروائی نہیں ہوئی ،ان کے مجرمین کو سزا نہیں ہوئی ،اگر انھیں سزا ہوجاتی تو بلی بائی کا نمبر ہی نہیں آتا۔مجرمین جن کا تعلق زعفرانی رنگ سے ہے وہ نڈر اور بے خوف ہیں ۔وہ کھلے عام جرائم کرتے ہیں ،دھمکیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا قانون کچھ نہیں کرسکتا ۔اور ساری دنیا دیکھتی ہے کہ واقعی قانون کچھ نہیں کرتا۔بلکہ مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کو ایک خاص طبقہ ہیرو بنادیتا ہے۔بابری مسجد گرانے والے مرکز میں وزیر بن گئے،مظفر نگر کے قاتل ریاست میں حکمراں ہوگئے۔آزادی کے بعد سے آج تک کسی بھی حکومت میں مسلمانوں کے قاتلوں کو سزا نہیں ہوئی ۔کتنے ہی کمیشن بنے ،کتنی ہی رپورٹیں تیار ہوئیں لیکن سب دکھاوا ثابت ہوئیں۔پہلے کی حکومتیں ہمارے رخم سہلا دیتی تھیں ،ہمدردی کے دو بول بول کر تسلی دیتی تھیں ،موجودہ حکومت ہمیں اس قابل بھی نہیں سمجھتی ۔مسلم امت نام نہاد سیکولر پارٹیوں پر اعتماد کرتی رہی اور نئے زخم کھاتی رہی۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے سماج میں بے حیائی اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے ۔یوٹیوب پر کھلے عام فحش ویڈیو اپ لوڈ کی جارہی ہیں ،اس میں مسلمان لڑکے بھی گندی گالیوں اور بے ہودہ حرکتوں پر مشتمل مواد اپ لوڈ کررہے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس پر یوٹیوب انھیں پیسیہ بھی دے رہا ہے ۔یعنی موجودہ مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے میں گالیاں دے کر اور ننگے ہوکر بھی پیسہ کمایا جاسکتا ہے۔نہ سماجی تنظیمیں ،نہ مذہبی ادارے اور نہ حکومتیں اس کا نوٹس لیتی ہیں،سوشل میڈیا کی وجہ سے دنگے بھڑک جاتے ہیں ،قتل ہوجاتے ہیں۔۲۶؍ دسمبر کی رات اتم نگر دہلی میں ایک مسلم نوجوان کا قتل کردیا گیا ۔میں نے ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی ،مجھے بتایا گیا کہ قتل کی وجہ انسٹا گرام پر کسی اسٹوری پر کمنٹ کرنا تھا۔قاتل کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ اس نے کمنٹ میں مارنے کی دھمکیاں دی تھیں ۔
مسلم خواتین کو اس طرح کے کسی ایپ سے گھبرا کر چپ رہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔انھیں اپنا مثبت سفر جاری رکھنا ہے۔دشمن یہ چاہتا ہے کہ مسلم خواتین مقابلے پر نہ آئیں اورگھر میں بیٹھ جائیں ،یاد رکھیے ڈرپوک خواتین کی گودوں میں بزدل قوم پرورش پاتی ہے۔یہ اچھا ہے کہ بلی بائی ایپ کے خلاف مسلم خواتین نے قانونی کارروائی کی ہے ،اس میں ان کا ساتھ انصاف پسند ہندوخواتین بھی دے رہی ہیں۔حکومت نے گٹ ہب سے جواب بھی مانگا ہے ۔لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے ۔سماجی تنظیموں کو اس معاملے کو ہر سطح پر اٹھانا چاہئے ۔سیاسی لیڈران کو قانون کے نفاذ کی کوشش کرنا چاہئے ۔اہل قلم حضرات کو نفرت اور تقسیم کی سیاست پر قلم اٹھانا چاہئے ۔وزیر اعظم کو بھی بتانا چاہئے کہ بیٹی بچائو ابھیان میں مسلم بیٹیاں شامل ہیں کہ نہیں۔یہ معاملہ صرف مسلم خواتین کا ہی نہیںہے ،کل کسی دوسرے طبقے اور مذہب کی خواتین بھی اس کا شکار ہوسکتی ہیں ۔ان حالات میں مسلم معاشرے کو کم سے کم خود کو بچانا چاہئے ۔ مسلم نوجوانوں کو ان حرکتوں سے باز رہنا چاہئے جو گناہ کے زمرے میں آتی ہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)