تحریر: قاضی عبدالاحد فلاحی
امام و خطیب پتھر والی مسجد، محمد علی روڈ، ممبئی
کسان مخالف تینوں سیاہ قوانین پر بالآخر مودی سرکار کو شکست ہوئی ہے، یہ درحقیقت حکومت کی ناکامی اور کسان آندولن کی کامیابی ہے، یہ عوامی طاقت کے بالمقابل فاشسٹ سرکاری طاقتوں کی ہار ہے، 350 دنوں سے زائد جاری رہنے والی یہ جدوجہد دراصل اس ملک میں رہنے والے انصاف پسند طبقہ کے لئے اطمینان کا باعث ہے، وہیں کسان آندولن کا یہ نتیجہ مسلم قیادت کے ليے سبق آموز بھی ہے، راستے پر چلنے والی اس جدوجھد نے یہ واضح کردیا کہ اگر کوئی بھی پارٹی سرکار پر قابض ہوکر بھی اگر عوام مخالف قانون بنائے اور ظالمانہ فیصلے مسلط کرے تو ایسے استعمار کو حکومت میں ہونے کے باوجود جھکنا پڑے گا، کسان آندولن نے نہ میڈیا پر انحصار کیا، نہ میڈیا کے ذریعہ اس آندولن کی شبیہ داغ دار کیے جانے سے پسپائی اختیار کی، نہ تو انہوں نے سیاستدانوں سے ملاقات کے لئے وقت طلب کیا نہ ہی انہوں نے عدالت جاکر انصاف کی بھیک طلب کی، بلکہ انہوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے ایک طریقہء کار پر اتفاق کیا اور پھر استقامت کےساتھ اپنی جگہ اطمینان سے جم گئے اور شفیق ماں کی طرح شریر بچے کی ناک دباتے رہے کہ بچہ جب منھ کھولے تو ماں اطمینان سے دوائی اس کے منہ میں انڈیل سکے،
آخر بچہ کب تک برداشت کرتا؟ منہ کھل ہی گیا اور آج مودی سرکار کو انصاف کی دوائی کے کڑوے گھونٹ اپنے حلق میں اتارنے پڑے !
اس درمیان ایم پی ایم ایل ایز خود ملاقات کے لئے پہنچتے رہے کسان لیڈروں نے ملاقات سب سے کی مگر کسی کو گھاس نہیں ڈالی نہ کسی کے اردگرد پھرتے نظر آئے، گودی میڈیا کے نمائندے جب ہمدردی کا سوانگ رچا کر آندولن کو بدنام کرنے پہونچے تو ان کو ہی ذلیل کیا گیا، نہ تو انہوں نے عدالت کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا گوارا کیا اپنی دھن میں مگن، نہ بارش کی پرواہ کی، نہ دھوپ آڑے آئی اور سب سے بڑھ کر ان کی مرکزی قیادت اپنے عیش و آرام کو تج کر اپنے خصوصی گھروں اور لگژری زندگی کو چھوڑ کر ان کے ساتھ ہی احتجاج گاہ میں آکر ان کے حوصلے بڑھانے میں بنفس نفیس شریک رہی. نتیجہ ہمارے سامنے ہے ان کے صبر اور استقامت کے سامنے فرعون کے تیور رکھنے والی حکومت کو اپنا سر جھکانا پڑا۔
دوسری جانب ہماری قیادت ہے، حکمت و احتیاط سے بھرپور، امن و امان سے ڈری سہمی، جمہوریت کے تئیں اسلام سے زیادہ مخلص، صرف جلسے جلوس پر ایمان رکھنے والی، مشوروں اور نبضِ زمانہ کے تقاضوں سے بالکل الگ ہٹ کر، اپنے خاندانی یا مریدین کے دائروں میں ہی لکیریں کھینچنے اور مٹانے والی، عدالت پر ججوں سے زیادہ اعتماد کرنے والی، آج بھی سیاسی و ملی مسائل کو دیکھنے کے لیے صدی پرانی عینک استعمال کرنے والی، اپنے خاندان کے علاوہ کسی بھی مومن پر خواہ وہ کسی قدر لائق و فائق ہو اس پر بھی اعتماد نہ کرنے والی، نسلِ نو کو مسلسل خود سے دور کرنے والی، اپنے آپسی انتشار میں مسلسل اضافہ کرنے والی ایمانی اصولوں اور نبوی نہج کو پس پشت ڈال کر مراعاتی نہج اختیار کرنے والی، دیکھیے کہاں پہنچ گئے ہیں ہم؟ یہ جوکچھ اس عاجز نے عرض کیا ہے اس پر مومنانہ بصیرت کےساتھ الہیٰ اصولوں کی روشنی میں اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے، یہی اصل خیرخواہی ہے، اپنی اصلاح سے ہاتھ کھینچ لینے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہر جگہ ناکام چاہے بابری مسجد ہو یا تین طلاق یا پھر این آر سی کا معاملہ . خواہ مشرکانہ نعروں کی گونج میں اہلِ توحید کی قتل و غارت کے شرمناک نظارے ہوں کہ ناموسِ رسولﷺ پر حملوں کے حادثات ہوں، ہم کہاں ہیں؟ محض اپنے روشن ماضی پر فخر کرنے سے تبدیلی نہیں آئےگی جب تک کہ پراگندہ حال کو تابناک بنانے کی جدوجہد نہ کی جائے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہماری پڑھی لکھی قیادت ان مظلوم لیکن منظّم اور جانباز کسانوں سے سبق حاصل کرے ؟