یہ جان کر تعجب ہوگا کہ سرکاری ریکارڈ میں شہیدکوئی لفظ نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو باضابطہ طور پر شہید سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے لئے کوئی خاص اہتمام ہے۔ یہ انکشاف جموں و کشمیر کے پلوامہ میں 14 فروری کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا ہے۔حکومت نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس کے ریکارڈ میں’مارٹر‘ یا’شہید‘ نام کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ حکومت کی یہ صفائی اس وقت منظرعام پر آئی جب سی آر پی ایف جیسے نیم فوجی دستوں میں اپنی جان گنوا بیٹھے فوجیوں کو شہید کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔
ستیہ ڈاٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دونوں وزارتوں نے کہا کہ اس کے لئے ’بیٹل کیجولیٹی‘ یا’آپریشن کیجویلیٹی‘ لفظ کا استعمال کیاجاتا ہے۔ بیٹل کیجولیٹی کے لغوی معنی’حملے میں ہلاکت خیزی‘ اور’آپریشن کیجویلیٹی‘ کامطلب ’مہم میں ہلاکت‘ ہوسکتا ہے۔اتنا ہی نہیں دفاع اور دیگر وزارتوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نیم فوجی دستوں کے شہدا کی ہلاکت کے مطالبے کی درخواست کی سماعت کے دوران دہلی ہائی کورٹ میں شہید کا لفظ استعمال نہیں ہے۔اس تنازعہ نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ جب نکسل حملے میں سنٹرل سیکورٹی فورس کے اہلکار ہلاک ہوگئے تھے تو ملک کے سیاستدان کیا کر رہے تھے۔یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک کے وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی انتخابی سیاست میں مصروف تھے۔ نکسلیوں نے یہ وقت منتخب کیا تو یہ فطری طور پر ان کی حکمت عملی ہے۔ لیکن کیا اس حکمت عملی کے جواب میں جو تیز ردعمل سامنے آنا چاہئے تھا وہ آیا؟ یا وہ انتخابی سیاست کی نذر ہوگیا؟ ایسی صورتحال میں ، شہید کے لفظ پر ہلچل کا کیا مطلب ہے؟