عبد السلام عاصم
جموں و کشمیر ہندستان کا اٹوٹ حصہ ہے، وہاں کی آبادی ہندستانی آبادی ہے اور وہاں کے مسائل قومی مسائل ہیں ۔ یہ تینوں باتیں کل بھی پوشیدہ نہیں تھیں اور24 جون کو اِن باتوں پر اُن کشمیری لیڈروں نے بھی مہر حق ثبت کر دی جنہیں دوسال قبل سخت قوانین کے تحت نظر بند کر دیا گیا تھا۔اسی لئے کہتے ہیں کہ بے رخی اتنی بھی نہ برتی جائے کہ کبھی ملنا پڑے تو احساس شرمندگی دامن گیر ہو۔
کشمیر کے داخلی مسائل کے تعلق سے (جو بیرونی مداخلت کی وجہ سے بگڑتے جا رہے تھے )سابقہ حکومتوں نے جہاں انتہائی ڈھیلا انداز اختیار کر رکھا تھا وہیں موجودہ حکومت کے سخت انداز نے دوسری انتہا کو چھو لیا ۔اِن ذو قطبی انتہاوں نے اس مسئلے کے عین انسانی حل کی طرف سے دونوں کی توجہ ہٹا دی ۔مسئلے کو کبھی فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا، کبھی علاحدگی پسندانہ تو کبھی انتہا پسندانہ۔ رنگ اور نسل، ذات اور مذہب سے بُری طرح متاثر سیاسی کاروبار کے ساتھ ایک دشواری یہ ہوتی ہے کہ اس دھندے میں وعدہ فروش رہنماوں اور جذباتی عوام کے مابین راست لیکن غیر صحتمند تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ یہ بے ہنگم اور محدود مفادات والا تعلق بنیادی مسائل کو حل ہونے ہی نہیں دیتا۔البتہ ایسے رہنماوں کیلئے وہ مسائل ہی آکسیجن کاکام کرتے ہیں جن سے قومی اتحاد اور علاقائی استحکام کو کسی نہ کسی شکل میں خطرہ لاحق رہتا ہے۔
حالات کے تازہ موڑ پر وزیر اعظم اور کشمیری رہنماوں کی ملاقات کی موافقت اور مخالفت دونوں سامنے آئی ہے۔ موافقت کرنے والے کسی ایک نظریہ کے لوگ نہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ایسے مسائل ختم ہو ں جن پر وہ وسائل صرف ہو رہے ہیں جو انسانی بہبود کیلئے پہلے سے ہی ناکافی ہیں۔دوسری طرف مخالفت کرنے والے بھی بھانت بھانت کے ہیں۔محبوبہ مفتی نے پاکستان کا نام کیا لے لیا کہ بعض حلقوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ موافقت کرنے والے جہاں مسائل سے اوبے ہوئے ہیںوہیں مخالفت کر والوں کا ایک اعتراض جائز ہے اس ملاقات سے کشمیری پندتوں کو کیوں دور رکھا گیا! آخر وہ بھی تو اسٹیک ہولڈر ہیں۔اُن کی باز آبادکاری پر صرف زبانی جمع خرچ اور جنگ جووں کے خلاف عملی کارروائی۔ دونوں محاذ عمل کے متقاضی کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔
پاکستان جموں و کشمیر کے اُس نقشے میں کسی طرح فٹ نہیں ہوتا جس میں ایک لکیر مقبوضہ کشمیر کو جموں و کشمیر سے الگ کرتی ہے۔تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور کسی بھی معاملے کو کنڈیشنڈ ذہن سے دیکھنا کبھی خوشگوار طور پر نتیجہ خیز نہیں ہوا۔
سابقہ صدی کے وسط میں برصغیر میں جو ملک تقسیم ہوا تھاوہ موجودہ ہندستان نہیں تھا بلکہ برطانوی ہندستان تھا جس کے حکمرانوں نے ہندستان کو آزاد کرنے سے پہلے ہندوؤں اور مسلمانوں کے انتہا پسند حلقوں کو ہمیشگی عطا کرنے کی خاطر انہیں مین اسٹریم میں لاکر دو غیر مربوط ٹکڑوں میں برطانیہ داد پاکستان خلق کیا تھا۔دوسری طرف آزاد ہندستان اپنی آزادی کے پہلے دن سے آج تک غیر منقسم ہے بلکہ کئی خودمختار علاقے اپنی بقا کے لئے اس میں شامل ہوئے۔ انہی میں سے ایک خطہ جموں و کشمیر کا بھی ہے۔
ریکارڈ کے مطابق برطانوی ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کشمیر برطانوی سرپرستی میں ایک خود مختار رجواڑا تھا۔ اس کے علاوہ جو دوسرے رجواڑے تھے انہیں بھی برطانوی ہندوستان کا حصہ تصور نہیں کیا جاتا تھا۔برطانوی ہندستان اگر تقسیم نہیں ہوا ہوتااور اسے اصل حالت میں برطانیہ سے آزادی مل گئی ہوتی تو موجودہ باقیماندہ پاکستان اور سماجی آبرو ریزی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بنگلہ دیش دیگر ہندستانی ریاستوں کی طرح آزاد ہندستان کا حصہ ہوتے ۔ اس طرح ہندستان سے الحاق کے بعد کشمیرمطلق کسی تنازعے کا شکار نہیں ہوتا۔
میرے اس اندازے کی تاریخ سے بھی تائید ہوتی ہے کہ 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ منقسم ہونے کے بعد آزاد اور خود مختار ہندوستان کسی رجواڑے کیلئے برطانوی ہندستان کی طرح سرپرست نہیں بنے گا۔ بہر حال یہ اُس وقت کی بات ہے جب پاکستان کے وجود کا ذکر بھی شروع نہیں ہوا تھا۔برطانوی ہندستان کو جب تقسیم کرنے کی سہ طرفہ سازش کامیابی کی دہلیز پار کرنے لگی تورجواڑوں پر بہر حال واضح ہو گیا تھاکہ انہیں کسی نہ کسی کے ساتھ انجام کار الحاق کرنا ہوگا۔
1947 کے انڈین انڈیپینڈنس ایکٹ کے مطابق 15 اگست کو ہندستان سے برطانیہ کی دست برداری کے ساتھ ہی کشمیر پر سے بھی برطانیہ کی بالادستی ختم ہو گئی تھی۔ اُس وقت تک کشمیر ہندستان یا پاکستان میں سے کسی کا حصہ نہیں تھا۔کشمیر کو برطانوی تسلط سے یہ آزادی دو مہینے تک بلا خلل حاصل رہی۔ہندستان کے ساتھ الحاق کے وقت کشمیر بالکل آزاد تھا ، یعنی پاکستان سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔کشمیر میں سیاسی کشیدگی کا ماحول کیسے پیدا ہو ا! اس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔سیدھا 22 اکتوبر1947 کے اُس واقعے سے رجوع کرتے ہیں جس میں پاکستان کے صوبہ سرحدکے قبائلیوں نے کشمیر پر منظم حملہ کردیا۔ پٹھان قبائلی کوئی تین سو ٹرکوں کے ساتھ حملہ آور ہوئے تھے۔ حملہ آوروں نے مسلمانوں کی مدد کی آڑ میں وہاں خوب لوٹ مار کی اور قتل اور غارتگری کا بازار گرم کیا۔اس کے بعد مہاراجہ کشمیر نے ہندستان سے مدد مانگی ۔ نوبت جنگ تک پہنچی ۔ اقوام متحدہ کی مداخلت نے جنگ تو بند کرادی لیکن کشمیر کا ایک ٹکڑا پاکستان کے پاس ہی رہ گیا۔پاکستان نے جس ارادے اور نیت کے ساتھ کشمیر پر چڑھائی کی تھی۔ اُس نیت سے تائب نہ ہونے کی سزا اُسے 1971 میں ملی جن وقت کے مورخ نے اُسے دو لخت کر دیا۔
صورتحال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دونوں ہی سانحات نے ہندستان اور پاکستان کو کچھ سیکھنے کی توفیق نہیں عطا نہیں کی۔ایک ہندستان کو زخم پر زخم پہنچانے کی ناکام کوششوں سے باز نہ آ سکا ، دوسرے نے پاکستان کے حملوں کو ناکام بنانے کی اپنی صلاحیت پر انحصار سے آگے بڑھنے کی کوئی نفسیاتی کوشش نہیں کی۔پاکستان کے نزدیک ہندستان ظالم ہے اور ہندستان کی نظر میں پاکستان نفسیاتی مظلوم ہے۔دونوں کی اسی سوچ نے شملہ سے لاہور تک کسی امن رخی مساعی کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
اس پس منظر میں سر دست کشمیر کو غیر محوری حیثیت دے کر ہی ہند پاک تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے بے پناہ سیاسی قوت ارادی کی سخت ضرورت ہوگی۔جس کا مظاہرہ ہندستان اور پاکستان دونوں کو کرنا ہوگا۔اس ضرورت کی تکمیل میں بڑا کردار ہندستان کو ادا کرنا ہوگا کیونکہ خرابئی بسیار کے باوجود وہ ایک متحرک جمہوری اساس رکھتا ہے ۔24 جون کی میٹنگ کو اسی جذبے سے دیکھا جائے۔ ہندستان موجودہ نظریاتی سیاست والے ماحول میں بھی اگر سیکولر ہے تو اسے صرف ہندستان کے حق میں ہی خوش آئند نہ رہنے دیا جائے۔ پاکستان کو بھی باور کرانا ہوگا کہ وہ اندھی ہند دشمنی سے باہر نکلے اور مغربی ایشیا میں پناہ لینے کے بجائے ایک بار پھر جنوبی ایشیا کا حصہ بن کر اپنی خارجہ پالیسی میں وہ تبدیلیا ں لائے جو اس خطے سے مطابقت رکھتی ہوں۔