آدتیہ مینن
آسام میں بی جے پی اپنے حلیفوں کے ساتھ انتخابی قلعہ جیتنے میں کامیاب رہی۔ بی جے پی کے زیرقیادت اتحاد 74 سیٹوں پر جیت حاصل کی۔ الیکشن کمیشن کے سرکاری نتائج کے مطابق بی جے پی نے پہلی جیت کا کھاتہ کھولاتھا۔ دوسری طرف کانگریس اپنے اتحادیوں اے آئی یو ڈی ایف ، بی پی ایف اور بائیں بازو کے ساتھ مل کر50 سیٹوں پر کامیاب رہی ۔
بی جے پی کی جیت کا فیکٹر
- مرکز کی مودی حکومت کی شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو لے کر اسی ریاست سے کافی مخالفت کی گئی تھی۔ تاہم اسمبلی انتخابات میں ہوئی ووٹنگ میں اس مخالفت کا کوئی خاص اثرنہیں دکھا۔
وہیں سی اے اے کا ایشواٹھانے والی کانگریس پارٹی اور اتحادی پارٹی اس کا کوئی خاص سیاسی فائدہ نہیں اٹھاسکی۔ بی جے پی کو آسام حکومت کے ذریعہ شروع کی گئی عوامی مفادات کی کچھ اسکیموں کا فائدہ ملا۔
.2آسام کی چھوٹی چھوٹی کمیونٹی میں بی جے پی اپنی پکڑ بناتی ہوئی نظر آئی۔ ان کمیونٹیز میں موران ، مانسنگ، رابھا اور دیوری شامل ہیں۔ آسام حکومت اور خاص طور پر وزیر صحت ہیمنت بسوا سرما کی کورونا وبا کے حالات کو سنبھالنے پر بے حد تعریف کی گئی، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ این ڈی اے کی جیت کی یہی واحد وجہ ہے۔ - سب سے بڑا عنصر یہی ہے کہ دو بڑے مقامی چہرے سربانند سونووال اور ہیمنت بسوا سرما نے بی جے پی کو انتخابات میں کامیابی دلانے میں اہم رول ادا کیا۔
کانگریس سے کہاں غلطی ہو ئی؟
ووٹ شیئر کے لحاظ سے دیکھیں تو کانگریس اور اتحادیوں کی کارکردگی اتنی خراب نہیں ہے۔ کانگریس اور اتحادیوں کو 42 فیصد ووٹ ملے۔ این ڈی اے کو ملے ووٹوں کا کچھ ہی فیصد کم۔ ایسا لگتا ہے کہ اتحاد مسلم ووٹ حاصل کرنے میں تو کامیاب رہا، لیکن بی جے پی ووٹروں کو اپنے حق میں کرنے میں کامیابی نہیں مل پائی۔
کانگریس کے زیرقیادت اتحاد نے نچلی آسام اور بارک گھاٹی والے علاقوں میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، لیکن اوپری آسام میں ناکام رہا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کانگریس چائے باغوں والے آدیواسیوں کے درمیان زمین کھوچکی ہے۔ اسی کے سبب پارٹی کو اوپر آسام میں نقصان اٹھانا پڑا۔
کانگریس نے بی جے پی کو بے روزگاری اورمہنگائی کے ایشوز پر گھیرنے کے لیے مہم ضرور چلائی، لیکن سربانند سنووال اور ہیمنت بسوا کے سامنے ایک مضبوط چہرہ نہیں لاپائی۔ کانگریس نے اگر گورو گگوئی اور پردیوت بورڈولوئی کو میدان میں اتارا ہوتا تو اس کے نتائج کچھ اور ہوسکتے تھے۔
بی جے پی کے سامنے وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کا چیلنج
انتخابی نتائج کے بعد اب بی جے پی کے لئے چیف منسٹر کے عہدے کے لئے چہرہ منتخب کرنا ایک چیلنج ہے۔ سربانند سونووال اور ہیمنت بسوا سرما دونوں ہی کے حمایت میں کافی دلیلیں ہیں۔ سونوال اوپر آسام میں مقبول ہیں اور طلبا تنظیم اے اے ایس یو کے پس منظر سے تعلق رکھنے والوں میں بھی ان کی پکڑ ہے۔ وہیں ہیمنت بسوا سرما بنگالی ہندو اور شہری ووٹروں میں مقبول ہے۔ دوسری طرف کانگریس کے لیے یہ وقت اپنے فیصلوں پرغور وفکر کرنے کا ہے۔
(بشکریہ : دی کوئنٹ)