تحریر :بھاشا سنگھ
ملک کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی سازشیں عروج پر ہیں۔ اس کے لیے اکثریتی آبادی میں اقلیتوں کے خلاف نفرت کی دھار کو تیز کیا جا رہا ہے۔ بہت سے مذہبی لوگ اب ان لوگوں کی تعداد میں شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے ہجومی تشدد، ایک انسان کو پیٹ پیٹ مار ڈالنے کو جائزٹھہرانے اور سب سے بڑے خطرےکی بات یہ ہے کہ عوامی فورمز سے مذہب کے نام پر منعقد ہونے والے یہ اجتماعات میں مسلمانوں کا قتل کرنے، ہتھیاروں کی نمائش اور آخر میں ہندو راشٹر بنانے کے لیے سنکلپ لیا جاتا ہے ۔ ان کا ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہےاورغیر بی جے پی والی پارٹیوں میںبھی کوئی ابال نہیںآتاہے۔ سب کچھ جان بوجھ کر دکھایا جاتا ہے، سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے، قاتلوں اور قتل کو مذہب کے دفاع کا مترادف بنانے والے شرپسندوں کو معاشرے کا لیڈر بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہ بلا وجہ نہیں ہے۔ غیر بی جے پی پارٹیوں کا قتل عام پر اکسانے والوں پر پہل نہیں کرنا، ردعمل کااظہار کرنے میں بھی کوتاہی کرنا، بہت دیر بعد سنبھل -سنبھل کرجاگنابتاتا ہے کہ اس قتل عام و نفرت پر مبنی سیاست نےکس قدر قدم جمالئے ہیں۔
وہ تمام جنونی قاتل، جو خود کو سوامی اور سادھوی کہتے ہیں، جنہوں نے 17 سے 19 دسمبر 2021 کو ہری دوار میں ہونے والی اس میٹنگ کو بلایا، دراصل سماج کو ایک سخت گیر ہندو قوم کے لیے تیار کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے زہریلا پولرائزیشن کررہے ہیں ۔ اس کا سیاسی ایجنڈہ واضح ہے۔ ہندو -مسلمان میں نفرت- مار -کٹ مچا کر سیٹوں کا فارمولیشن بی جے پی کے حق میں کرنا ۔ اترپردیش ہویا اتراکھنڈ- دونوںہی جگہ زمین سے بی جے پی کے لیے ماحول اچھا نہیں ہے۔ لوگوں میں ناراضگی بڑے پیمانے پر ہے۔ ایسے میں ہندوخطرے میں ہے، کا جاپ کرکےتمام مسائل کوپیچھے ڈھکیلنا – اس طرح کے اجتماعات کا فوری مقصد ہے۔
لیکن یہاں تیاری فوری سے زیادہ دور رس مقاصد کے لیے ہے۔ جسے نفرت میں لپٹے اس تین روزہ پروگرام میں تقریباً ہر مقرر نے دہرایا۔ یہ واقعہ مسلمانوں کے قتل عام کے مکمل بلیو پرنٹ کے ساتھ پیش آیا۔ ہندوؤں کی بہادری کو للکارنے کے لیے ایسے ڈائیلاگ مارے گئے، جنہیں سن کر لگتا ہی نہیں کہ ہماری تہذیب اتنی دور آنے کے بعد یہاں تک پہنچی ہے۔ ہتھیار خریدنے کی باتیں، جدید ہتھیاروں سے قتل، تلواروں سے نہیں، 100-200 لوگوں کے ذریعے لاکھوں کوٹھکانے لگانا، پورے ملک کے خلاف، آئین کے خلاف مہم چلانے والے ایسا مقابلہ کر رہے ہیں، جیسے آپس میں کوئی مقابلہ ہو۔ لوگوں کو بڑے پیمانے پر تشدد پر اکسا سکتے ہیں۔ ایک قتل عام بیچنے والوں کے اجتماع کی ویڈیو دیکھ کر انسانیت بھی دنگ رہ جائے۔
یہاں دو باتیں او0ر بھی قابل توجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس خون کے پیاسے اجتماع کو تعلیم سے بہت مسئلہ ہے۔ وہ بار بار چیختا ہے کہ کتابیں نہیں، پڑھائی نہیں -ہتھیار چاہیے ، جنگ کا ساز وسامان چاہئے ۔ زندگی میں بنیادی خوشیوں پر خرچے نہیں مسلمانوں کومارنے کے لیے جدید ،مہنگے والے طور – طریقے چاہئے۔ ساتھ ہی ہندوؤں کےذریعہ زیادہ بچے نہ پیدا کرنے پر گہراملال ہر شرپسندشخص کو تھا۔ مزے کی بات ہے کہ یہ سارے کے سارے خاندانی ذمہ داریوں سے بھاگے ہوئے لوگوں کے قبیلے کے افراد ہیں، گھر سے کوسوں دور، بچے پیدا کرنے، پرورش سے دور ہیں۔ یہ سب دوسرے کے بچوں کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کے لیے بے چین ہیں۔
اس کےساتھ ہی ایک بات اور واضح ہو گئی کہ ملک کے آئین کو بدلنے کی ضرورت اس جنونی بھیڑ کونہیںہے۔ کیونکہ وہ اسےمانتے ہی نہیں۔ اور چونکہ انہیںمعلوم ہےکہ جو لوگ اقتدارمیں بیٹھے ہیں ، وہ انہیں کا ایجنڈہ چلا رہےہیں،لہٰذاانہیں کوئی چھو نہیں سکتا۔ چاہے وہ آئین کوجلادیں ۔ بھگوا آئین پیش کریں۔ گاندھی کی تصویرپر گولی ماکر گوڈسے زندہ باد کا نعرہ لگائیں ۔ انہیں سب کی چھوٹ ہے۔
جس طرح سے مختص عوامی مقامات پر نمازوں کو روکا جا رہا ہے اور اسے ریاست ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کی کھلی حمایت حاصل ہے، جس طرح سے گرجا گھروں پر حملے ہو رہے ہیں، کرسمس سے پہلے تقریبات پر پابندی لگائی جا رہی ہے، نائٹ کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ریاست مشینری نے فاشسٹ قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ ہندوستانی جمہوریت تشدد کو مذہبی اور سیاسی جواز دینے کے ایک ظالمانہ دور سے گزر رہی ہے۔
(بشکریہ: نیوزکلک: یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)