یہ تو صرف بچے تھے جی ہاں! اس عنوان کے ساتھ امریکہ کے معروف اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے غزہ میں شہید بچوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تمام 64 بچوں کے فوٹو دئے ہیں، ان کا تعارف دیا ہے کہ نام ،عمر کیا ہے اور وہ کس طرح اسرائیلی بمباری کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن گئے۔ شاید ہندوستان کا کوئی اخبار یا ٹی وی ایسی جرأت کامظاہرہ نہیں کرسکتا، جبکہ امریکی میڈیاپر یہودیوں کا تسلط ہے پھر بھی انسانی حقوق کے حوالہ سے امریکی میڈیا کا ضمیر دستک دیتا رہتاہے ۔ سب سے پہلے ایک 5 سالہ بچے غرابی کا فوٹو ہے جو جبلیہ علاقہ میں اسرائیلی میزائیل کانشانہ بنا۔ کوئی دو سال کا ہے ۔
کئی شیر خوار بچے اس فہرست میں شامل ہیں ، جو عالمی برادری کے سامنے سوالیہ نشان بن کر کھڑے ہیں کہ کیا ہمیں انصاف ملے گا۔ نیویارک ٹائمز نے جو ابتدا کی ہے اسے منزل تک پہنچانے کی ضرورت ہے کہ یہ صدا زیادہ سے زیادہ لوگوں تک جائے۔ ان معصوموں کا دیدار ہی کرلیں جو اپنے وطن کی آزادی کی قیمت ادا کرکے اللہ کے حضور حاضر ہوگئے۔
یہ تصاویر اسرائیل کی بربریت ، قتل وغارتگری اور نسل کشی کی مہم سے بھی پردہ اٹھاتی ہیں۔ گیارہ روز لڑائی جو یکطرفہ تھی جس میں میزائیلوں ، بمبوں اور فضائی وبحری حملوں کا آزادانہ استعمال ہوا ، اس کی خون میں لتھڑ ی کہانی بیان کرتی ہیں، اسے ہر اس شخص تک لے جائیں جو واقعی فلسطین اور بیت المقدس کے لیے تڑپتا ہے اور دعائیں کرتا ہے ۔ سوچے ان بچوں کے ماں باپ کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی ، شاید ہمیں بھی پھر نیند نہ آئے۔