بدایوں ؍ لکھنؤ :(ایجنسی)
بدایوں کا واقعہ یوپی میں ایک مخصوص کمیونٹی کے تئیں پولیس کے بدلتے رویہ کی بھی کہانی ہے، حالانکہ پانچ پولیس والوں کو معطل کر دیا گیا ہے لیکن اس معاملے میں جو گھر تباہ ہوا وہ پانچوں پولیس والوں کو معطل کرنے سے واپس نہیں ہونے والا ہے۔ کسی کیس میں اگر ملزم مسلمان ہوتا ہے تو پولیس کا رویہ اور ان کے ساتھ نمٹنے کا طریقہ بدل جاتا ہے۔ حالانکہ سبھی پولیس والے اور افسران ایسے نہیں ہوتے، لیکن یوپی میں جس طرح سے واقعات سامنے آرہے ہیں، وہ یہی بتاتے ہیں۔
بدایوں میں ریحان نامی نوجوان کو پولیس نے 2 مئی کو گائے ذبح کرنے کے الزام میں پکڑا تھا، حالانکہ ریحان ایک اسپتال میں سبزی بیچتا تھا لیکن پولیس اسے راستے میں پکڑ کر چوکی پر لے آئی اور اس کی پٹائی کی۔ اس کی والدہ کا کہنا ہے کہ پولیس والوں نے اس کے پرائیویٹ پارٹ میں ڈنڈا ڈال دیا۔ اسے بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ اسے پانچ ہزار روپے رشوت لے کر چھوڑ دیا گیا۔ بعد میں جب اسے ڈاکٹروں کو دکھایا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کا اعصابی نظام فیل ہو گیا ہے۔ وہ گہرے صدمے میں ہے۔
ریحان کی والدہ نجمہ نے ایس ایس پی سے شکایت کی۔ انہوں نے معاملے کی جانچ ایس پی سٹی سے کروائی۔ ایس پی سٹی کی تفتیش میں تمام الزامات درست نکلے۔ ریحان کے خلاف پہلے سے گائے ذبح کرنے کا کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اور نہ ہی وہ مطلوب تھا۔ ایس پی سٹی کی رپورٹ پر ایس ایس پی نے پولیس چوکی انچارج ستیہ پال سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا۔
بدایوں کا یہ واقعہ نیا نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات یوپی میں بہت زیادہ ہو رہے ہیں اور پولیس کا ان کے ساتھ سلوک غیر انسانی ہے۔ ابھی جمعہ کو کانپور میں نماز کے بعد تشدد پھوٹ پڑا اور دونوں برادریوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔ اس واقعے کی جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں وہ چونکا دینے والی ہیں۔ پولیس کو ملزم کے نام پر ایک خاص برادری کے لوگوں کی پٹائی کرتے ہوئے پایا گیا۔ کچھ ایسے ویڈیوز تھے جن میں لوگ دوسری برادریوں پر پتھراؤ کر رہے ہیں اور پولیس ان کے ساتھ کھڑی ہے، ایسی تمام ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ کانپور معاملے میں اب تک پولیس نے یکطرفہ کارروائی کی ہے۔ ایک ہی برادری کے 36 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے جب دیگر ریاستوں میں رام نومی کے موقع پر تشدد کے واقعات ہوئے تھے تو اس وقت بھی پولیس کا یہی رویہ سامنے آیا تھا۔
(بشکریہ: ستیہ ڈاٹ کام)