سابق رکن یورپین پارلیمنٹ ڈاکٹر سجاد کریم نے کہا ہے کہ اقدار کی سیاست کی بجائے پاپولر نظریات پر سیاست قوموں کے اندرونی اتحاد میں دراڑیں پیدا کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ یورپ اور برطانیہ میں اسلاموفوبیا اور مخالفانہ تعصبات (اینٹی سیمیٹزم) میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’یورپ اور برطانیہ میں بڑھتے ہوئے مخالفانہ تعصبات اور اس کی وجوہات‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ یورپ میں شدت پسندانہ خیالات میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ دائیں بازو کی جانب سے ہے۔ اسی لیے ہم اینٹی سیمیٹزم اور اسلاموفوبیا میں اضافہ دیکھ رہے ہیں، یہ بات ہم تمام یورپ میں رہنے والوں کے لیے تشویش کا باعث اس لیے ہے کہ ہمارے معاشرے کی بنیاد اقدار پر رکھی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس اضافے کی ایک اہم وجہ ان فار رائٹ گروپوں کا زیادہ فعال ہونا اور حکام کا ان کی صحیح جانچ پڑتال نہ کر کے ان کی راہ میں مزاحمت نہ کرنا ہے۔
ڈاکٹر سجاد کریم نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ ان مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے انہیں چٹائی کے نیچے دھکیل کر چھپا دیا جائے، اسی کے باعث اب ہماری سوسائٹی میں دراڑیں نظر آنا شروع ہوگئی ہیں۔
ڈاکٹر سجاد کریم نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں اس کی مثال دو تین ممالک کے ذریعے دینے کی کوشش کرونگا۔
انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنے ملک برطانیہ کی بات کرونگا جہاں موجودہ وزیراعظم بورس جانسن جب کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کا الیکشن لڑرہے تھے تو انہوں نے پبلک ٹی وی پر لائیو گفتگو کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ منتخب ہوکر برطانیہ میں اسلاموفوبیا کی موجودگی پر تحقیقات کروائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن جب وہ وزیراعظم بن گئے تو انہوں نے یہ تحقیقات نہیں کروائیں، بلکہ اس کی بجائے انہوں نے ’امتیازی سلوک‘ کے نام سے ایک رپورٹ پر کام شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھ سمیت ایسے لوگ جو ان تحقیقات کے لیے بہت سے ثبوت پیش کر سکتے تھے، انہیں اس عمل سے علیحدہ کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے ہوتا یہ ہے کہ وہ چیزیں جن پر آپ کی سوسائٹی کے اتحاد کی بنیاد ہوتی ہے، اس میں دراڑیں پڑنا شروع ہوجاتی ہیں اور اینٹی سیمیٹزم اور اسلاموفوبیا دونوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ایسے میں قومیت پرستی کی تحریکیں سر اٹھاتی ہیں اور بریگزیٹ پر مذاکرات کے دوران ناردرن آئرلینڈ پر گفتگو جیسی چیزیں نظر آتی ہیں۔
یورپین صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے مسلسل 15 سال تک یورپین پارلیمنٹ کے رکن رہنے والے ڈاکٹر سجاد کریم نے کہا کہ یورپ میں اینٹی سیمیٹزم اور اسلاموفوبیا کا آغاز اینٹی امیگرینٹ گفتگو میں ہوا۔
شروع میں ایسے گروہوں کو انتخابات میں کامیابی نہیں حاصل ہوئی، لیکن انہوں نے اپنے ممالک میں سیاسی گفتگو کا رخ ان مسائل کی طرف موڑنے میں کامیابی ضرور حاصل کر لی، یہ عمل قوموں کے اندرونی اتحاد کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوا۔
یہ پاپولسٹ سیاست ہے جو اب، ایک عالمی حقیقت اور عوام میں آسانی سے بکنے والا چورن ہے۔
اس وقت ایک ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو ان متعصبانہ نظریات کے خلاف کھڑی ہو اور ان کی مزاحمت کرے۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس وقت قومی قیادتیں یہ کر رہی ہیں کہ بڑے بڑے وعدے اور گفتگو کرو، اقتدار حاصل کرو اور پھر ان وعدوں سے مکر جاؤ۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر سجاد کریم 2004 سے لیکر 2019 تک مسلسل یورپین پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔
وہ پارلیمنٹ میں کنزرویٹو پارلیمنٹ کے ترجمان، پارلیمنٹ کی ٹریڈ مانیٹرنگ کمیٹی برائے ساؤتھ ایشیا کے سربراہ اور یورپین پارلیمنٹ کی اینٹی ریس ازم اور ڈائیورسٹی انٹر گروپ کے نائب صدر اور اسلاموفوبیا پر اسی کمیٹی کے ورکنگ گروپ کے چئیرمین بھی رہے۔
انہوں نے 2014 میں پارلیمنٹ کے ECR گروپ کی جانب سے یورپین پارلیمنٹ کے صدر کا انتخاب بھی لڑا اور 101 ووٹ حاصل کیے۔