تحریر: ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
تریپورہ کئی روز سے جل رہا ہے، تریپورہ سے آنے والی رپورٹوں کے مطابق تقریبا دس مسجدیں جلائی جاچکی ہیں، دنگائی بغیر کسی ڈر و خوف کےمسلم اقلیتی طبقے کے گھروں اور دوکانوں کو لوٹنے اور جلانے کی خبریں لگاتار آرہی ہیں، پولیس اور انتظامیہ جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے، پولیس پھر تماشائی دکھائی دے رہی ہے، حکومت خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، مین اسٹریم میڈیا نے ابھی تک تریپورہ کی خبروں کو جگہ نہیں دی ہے، جمعہ کے دن دنگائیوں کی بھیڑ نے پال بازار راتاچھیرا ضلع اوناکوٹی کی مسجد پر حملہ کردیا اور مسجد کو بری طرح نقصان پہنچایا گیا، ہندوتوا گروپ کے دنگائی سڑکوں پر آزاد گھوم رہے ہیں اور مسلمان ڈرے سہمے جان بچانے پولیس کی مدد کا انتظار کررہے ہیں۔
13 سے 15اکتوبر کو بنگلہ دیش میں تشدد کے کچھ واقعات ہوتے ہیں، بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ فوری طور پر تشدد کے ان واقعات پر سخت قدم اٹھاتے ہوئے سامنے آتی ہیں، ہندوستان کو بھی نصیحت کرتی ہیں کہ ہندوستان میں اقلیتی طبقات پر ہونے والے حملوں کا ردعمل بنگلہ دیش میں ہوتا ہے، بنگلہ دیش میں تقریبا 450 افراد ہندو اقلیت پر حملہ کرنے یا ان کے خلاف نفرت بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کئے جاچکے ہیں، لیکن 15 اکتوبر کو بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات کے ردعمل میں بجرنگ دل، ہندو یوا واہنی اور آرایس ایس کے کارکنان تریپورہ کے متعدد علاقوں میں ریلیاں کرتے ہیں اور ان ریلیوں کے دوران مسلم مساجد اور ان کے گھروں و دوکانوں کو نشانہ بناتے ہیں، مسلمانوں سے بدلہ لینے کیلئے ہندو اکثریتی طبقات کو بھڑکاتے ہیں، پولیس جوانوں کے سامنے دنگائی سڑکوں پر آزاد گھوم رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کا ہونا کسی بھی حکومت کے لئے کوئی سنجیدہ مسئلہ کبھی نہیں رہاہے، ملک کی جدوجہد آزادی سے لے کر اب تک فرقہ پرست طاقتوں نے ہمیشہ اقلیتی طبقات کو اپنے نشانے پر رکھا ہے لیکن یہ سماج دشمن طاقتیں ہمیشہ قانون کی گرفت سے آزاد رہی ہیں۔ اس سلسلے میں اب تک بے شمار تحقیقات ہوئی ہیں، تقریبا تمام ہی حکومتیں فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کرنے میں ناکام رہی ہیں، کسی بھی سیاسی پارٹی نے فسادات کو روکنے میں پولیس کی ذمہ داری و جواب دہی کو طے کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی، ملک میں یا ملک کے کسی بھی کونے میں اگر کسی بھی شہری یا انسان کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو یہ ناکامی بلاشبہہ حکومت و پولیس کی ہوتی ہے لیکن اس ناکامی کا ہمارے ملک میں کوئی احتسابی نظام آج تک قائم نہیں ہوا۔ حکومتیں سرکاری خزانے میں جمع عوام کے ٹیکس سے معاوضہ ادا کرنے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھ لیتے ہیں جس کا مقصد بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔
تریپورہ میں بنگلہ دیش واقعات کے خلاف احتجاجات کے دوران کئی جگہ مسلمانوں پر جس طرح حملے ہوئے اور آگ زنی کی گئی لیکن پولیس خاموش تماشائی بنی رہی، مخصوص اقلیتی طبقے کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے مذہبی مقامات کو تباہ و برباد کیا گیا، تریپورہ کے گوماتی ضلع میں دنگائیوں اور پولیس کے بیچ ہونے والے تصادم کے نتیجے میں تقریبا 12 افراد زخمی ہوگئے جن میں 3 پولیس اہلکار بھی شامل تھے، آخر ان تمام تصادم کی خبریں میڈیا اور حکومت کے کانوں تک کیوں نہیں پہنچ رہی ہیں جب کہ تریپورہ میں چار دن سے فسادات بھڑک رہے ہیں، تریپورہ کے وزیراعلی نے بھی ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، مرکزی و صوبائی حکومت و اس کے سربراہوں کی خاموشی سماج مخالف عناصر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر حکومت اور پولیس و انتظامیہ ان فسادات کو روکنے کی سنجیدہ کوششیں کیوں نہیں کرتی ہیں، سڑکوں پر جے شری رام کے نعروں کے ساتھ مسجدوں اور مسلم گھروں و دوکانوں پر حملہ کرنے والوں پر پولیس اتنی مہربان کیوں ہوتی ہے، اس سے پہلے دہلی و دیگر مقامات پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ایسی بہت سی ویڈیو اور فوٹو بھی منظر عام پر آئے جن میں یہ صاف صاف ظاہر ہورہا تھا کہ فسادات کے دوران پولیس دنگائیوں کی مدد کررہی ہے، یہ مدد کہیں فسادیوں کو اپنے سامنے اقلیتی طبقے پر حملے کے دوران خاموش تماش بین بن کرتھی تو کہیں دنگائیوں کے ساتھ پولیس بھی اقلیتی طبقے پر پتھراو یا لاٹھی چلارہی تھی۔ اقلیتی طبقے کے بچوں کو وردی پہنے ہوئے پولیس کے افراد آزادی دلانے اور حب الوطنی کا سبق یاد کراتے ہوئے لاٹھیاں برساتے ہوئے دکھے۔
فسادات کے دوران اور پھر فسادات ختم ہونے کے بعد بھی اقلیتی طبقے نے پولیس کی یکطرفہ کاروائی و زیادتیوں کے خلاف شکایتیں کیں۔ اگر ہر فرقہ وارانہ حادثہ میں انتظامیہ و پولیس کا شروع سے لے کر آخر تک رول مشکوک ہو اور ایمانداری کو لے کر اٹھنے والے سوالات شواہدات و ثبوتوں کی بنیاد پرہوں تو وہی پولیس کس بنیاد پر جانچ کرنے یا کاروائی کرنے کا حق رکھتی ہے۔ ان حالات و واقعات کی روشنی میں قانون کی نگاہ میں تو پولیس ہی فسادات کی ذمہ دار ٹھہری کیونکہ امن و امان اور قانون و دستور کی بالادستی کو قائم کرنا حکومت کا دستوری فریضہ ہے اور یہ فریضہ ادا کرنا ہی پولیس کی قانونی و دستوری ذمہ داری ہے جس کے لئے ایک عوامی جمہوری ملک میں عوام کے ٹیکس کے ذریعے پولیس و دیگر حفاظتی ایجنسیوں کے خرچ اٹھائے جاتے ہیں۔
فسادات یا فرقہ وارانہ واقعات کے متاثرین ہمیشہ پولیس کے خلاف بہت سے الزامات لگاتے آئے ہیں جن میں پولیس کا ملزمین کے خلاف نامزد ایف آئی آر درج کرنے سے انکار، پولیس کے ذریعے شکایت کرنے والوں پر صلح کرنے کا دباو نیز فسادات کے دوران خاموش تماشائی بنے رہنا، یا اپنی ذمہ داری و فرائض کو جان بوجھ کر انجام نہ دینا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سماج دشمن طاقتیں اپنے سیاسی یا فرقہ وارانہ مفادات کے لئے ہندو مسلم فسادات یا دنگے کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اور فرقہ وارانہ حادثات کبھی بھی اور کہیں بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے ہونے کو روکنا آسان نہیں لیکن اگر یہ فسادات ملک کی راجدھانی دہلی میں بھی ہوتے ہیں جیسا ہم نے گزشتہ برس دیکھا اور کئی روز گزرجانے کے بعد بھی پولیس فساد روکنے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ پولیس پر غلط طریقے سے جانچ کرنے کے الزامات بھی لگے تھے، تریپورہ میں مسلم آبادی صرف چار لاکھ کے قریب ہے جو کہ پورے تریپورہ میں پھیلی ہوئی ہے، مسلمانوں کو ان کی پہچان کی وجہ سے حملوں کا شکار بنانا ایک خطرناک سازش ہے جو مسلم قوم کو ڈر و خوف کا شکار بنائے گی نیز ہندوتوا تنظیموں کے حوصلے بلند کرے گی جس کا نتیجہ سماج و ملک میں باہمی خلفشار و خانہ جنگی کے سوا کچھ نہیں، ہر شہری کی زندگی و جان قیمتی ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر جان کو اور ہر شہری کے مال کو تحفظ فراہم کرے۔
آزادی سے لیکر اب تک فرقہ وارانہ فسادات ہمارے ملک کیلئے المیہ ہیں،فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لئے کمیونل وائلنس (روک تھام) بل کو پاس کرانا ہم سب کی ذمہ داری ہے، حکومت کو چاہیے کہ یہ بل پاس ہو نیز فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لئے سخت قانون بنایا جائے جس میں پولیس و انتظامیہ کی جوابدہی طے ہو، تفتیش ایمانداری سے ہو، سماج دشمن عناصر کے اوپر لگام لگائی جاسکے، اقلیتی طبقات کو ہمیشہ ووٹ بینک ہی سمجھا گیا اور صرف معاوضے و جانچ کمیشنوں سے بہلانے کی کوششیں کی گئیں۔ دستور ہند نے تو نہ صرف ہر شہری کو بلکہ ہر انسان کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت و عدالت کے ذمہ کی تھی لیکن افسوس فرقہ پرست طاقتیں قومی یکجہتی و گنگا جمنی تہذیب کے ساتھ ساتھ دستوری جمہوری نظام اور عدالتی نظام کو بھی کہیں نا کہیں متاثر کر رہے ہیں، تریپورہ میں ہونے والے واقعات و حادثات پر مذہبی قیادت کی خاموشی بھی ان پر بھی طاری سرکاری و سنگھی خوف کی علامت ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)