تحریر: ڈاکٹرراجو پانڈے
تریپورہ میں بھی فرقے وارانہ تشدد کا زہر پہنچ ہی گیا ۔ مین اسٹریم میڈیا نے اس دکھ اورافسوسناک پیش رفت پر خاموشی اختیار کی۔ ریاستی حکومت کا کہنا تھا کہ اول تو کچھ ہوا ہی نہیں اور اگر کچھ ہوا بھی تو وہ بہت معمولی تھا اور اس پر کنٹرول پا لیاگیاہے۔ ان کے نیوز پورٹل نے گراؤنڈ رپورٹنگ کے ذریعہ اقلیتی برادری میں پھیلے خوف اور عدم تحفظ کی تصویر کشی کی اور مشتعل بھیڑ کے ذریعہ املاک کو نقصان پہنچانے کی تصا ویر شیئر کیں۔ مقامی سرکار کا خیال تھا کہ ایسی ہر رپورٹ یک طرفہ اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہے ،جو اقلیتی برادری کے خلاف تشدد کو نمایا ں کرتی ہے اورامن وامان کو برقرار رکھنے کی اس کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے ۔
مسلم کمیونٹی تریپورہ کی کل آبادی کا تقریباً 9 فیصد ہے۔ تریپورہ حکومت کا خودکا 2014 کا سروے ظاہر کرتا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلم کمیونٹی کی نمائندگی 2.69 فیصد ہے۔ اسی سال اعلیٰ تعلیم سے متعلق ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ کالجوں میں صرف 3.6 فیصد طلباء اور 1.5 فیصد لڑکیاں مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی یہاں مسلم کمیونٹی نہ تو آبادی کے لحاظ سے غلبہ کی پوزیشن میں ہے اور نہ معاشی، انتظامی، تعلیمی اعتبار سے۔ سیاسی نقطہ نظر سے بھی مارکسی کمیونسٹ پارٹی سمیت تمام پارٹیوں پر اونچی ذات کے ہندوؤں کا غلبہ ہے، یہاں پر مسلم کمیونٹی کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔
تریپورہ اب تک بنگالی ہندوؤں اور مقامی قبائلی برادری کے درمیان ہونے والے جد وجہد اور تنازعات کے لیے جانا جاتا تھا۔ مانیکیہ کے زمانے سے ہی بنگالی ہندوؤں کو حکمرانوں کی طرف سے انتظامیہ اور بنگالی مسلمانوں کو زراعت کے لیے مدعو کیا گیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی، جب کہ انگریزوں کے ناجائز مطالبات کو پورا کرنے کے لیے قبائلیوں پر اضافی ٹیکس عائد کیے گئے۔ ملک کی تقسیم اور شاہی ریاستوں کے انضمام کے دوران، تریپورہ کے حکمرانوں نے ہندوستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مشرقی پاکستان سے ہزاروں بنگالی ہندو مہاجرین یہاں آئے تھے۔ 1971 میں جب بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد جاری تھی تب بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے برعکس، مسلم آبادی کا ایک حصہ اس وقت مشرقی پاکستان اور اب بنگلہ دیش چلا گیا۔ دھیرے دھیرے مقامی قبائلی برادری اقلیت بن گئی اور بنگالی بولنے والے تریپورہ میں اکثریت میں آگئے۔ مسلمانوں کی آبادی بھی 1941 میں 24.09 فیصد سے کم ہو کر آج 9 فیصد رہ گئی ہے۔ آزادی کے بعد تریپورہ کے قبائلی اکثریتی علاقے ترقی کے معاملے میں پسماندہ ہوگئے اور ان میں عدم اطمینان نے عسکریت پسندی کو جنم دیا۔
آزادی کے حصول سے عین قبل ایک خوشحال ٹھیکیدار عبدالبارک عرف گیندو میاں نے انجمن اسلامیہ کے نام سے ایک پارٹی بنائی۔ یہ پارٹی تریپورہ کو مشرقی پاکستان کا حصہ بنانا چاہتی تھی لیکن مقامی لوگوں اور سیاسی پارٹیوں کی حمایت نہ ملنے کی وجہ سے وہ ناکام ہو گئی۔ یہاں بھی فرقہ وارانہ تفریق کا عنصر ثانوی رہا۔
تریپورہ میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ طویل عرصے سے سرگرم ہے۔ سنگھ تب سے وہاں کام کر رہا ہے جب سے نیشنل لبریشن فرنٹ آف تریپورہنے چرچ پر یقین نہ رکھنے والے بنگالیوں اور آدیواسیوں پر حملے شروع کئے تب سے سنگھ وہاں کام کر رہاہے ۔ ایک موقع ایسابھی آیا جب عسکریت پسندوں نے آر ایس ایس کے تین پرچارکوں کو اغوا کر کے قتل کر دیاتھا۔ اس تناظر میں بھی مسلم کمیونٹی مذہب کی تبدیلی میں شامل نہیں تھا۔
یعنی یہاں ہندو مسلم جد وجہد کی صورت حال پہلے کبھی نہیں تھی۔ فرقہ وارانہ دشمنی کی کوئی تاریخ نہ ہونے کے باوجود، تریپورہ اکتوبر کے آخری ہفتے میں فرقہ وارانہ تشدد کی لپیٹ میں تھا۔ اکتوبر میں ہی بنگلہ دیش میں نوراتری کے دوران درگا پوجا کے پنڈلوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ اس کے خلاف شمالی تریپورہ کے پانیساگر سب ڈویژن میں وشو ہندو پریشد کی جانب سے ایک ریلی نکالی گئی جس میں تقریباً 3500 لوگوں نے شرکت کی۔ اس دوران تشدد پھوٹ پڑا اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچانے کی خبریں منظرعام پر آئیں۔ اس کے بعد تریپورہ کے مختلف مقامات پر شدت پسند دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کی طرف سے فرقہ وارانہ تشدد اور توڑ پھوڑ کی خبریں ایک ہفتے تک مختلف نیوز پورٹلز پر شائع ہوتی رہیں اور ریاستی حکومت نے ایسے کسی بھی واقعے کی تردید کی۔ یہاں تک کہ چیف منسٹر آفس، وزیراعظم آفس اور وزارت داخلہ کی جانب سے بھی اس حوالے سے کوئی ٹویٹ نہیں کی گئی۔
ریاستی حکومت نے معزز ہائی کورٹ کو بتایا کہ عوام کو بھڑکانے کے لیے سوشل میڈیا پر کچھ ایسے مضامین یا مناظر اور فوٹیج شیئر کیے جا رہے ہیں، جن کے ساتھ یا تو چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے یا ان کا تعلق ریاست تریپورہ سے نہیں ہے۔ معزز عدالت نے ایسے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کارروائی کرنے کی ہدایت کی اور سوشل میڈیا کو مزید ذمہ دار بننے کو کہا۔
ایک سوال جو ان دنوں دانشوروں کو بار بار پریشان کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا فرقہ واریت حکومت کی اپنی ناکامیوں اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کا ایک طریقہ ہے یا فرقہ وارانہ عدم برداشت کا شکار معاشرہ تشکیل دینا ہے۔کیا پہلی ترجیح اور دیگر موضوعات غیر اہم ہیں؟ آنے والے دنوں میں شاید اس سوال کا جواب مل جائے۔
(بشکریہ: نیوزلانڈری )