تحریر: مسعود جاوید
ملکی سیاست ہو یا عالمی سیاست، تھنک ٹینک کے لوگ ایسی اسٹریٹجی بناتے ہیں کہ ملک اور دنیا کی بہت بڑی آبادی تھنک ٹینک کے بیانیہ کو ہی حقیقت سمجھ کر اسی کی زبان بولنے لگتی ہے۔
اس میں سب سے بڑا کردار ذرائع ابلاغ میڈیا کا ہوتا ہے وہ نیوز چینلز نہیں ویوز چینلز بن کر لوگوں کے ذہنوں میں تھنک ٹینک کے بیانیہ کو اس طرح پیوست کرتے ہیں کہ قارئین اور ناظرین تحقیق کرنے اور دوسرا نقطہ نظر سننے کو گوارہ نہیں کرتے۔ ایسے چینلز کے اینکرز غیر جانبداری کا فریضہ منصبی طاق پر رکھ کر مقتدرہ کے ترجمان کا رول ادا کرتے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی انقلابی ترقی نے بھی اس میں نمایاں کردار کیا ہے۔ مثال کے طور پر اب کیا لکھنا ہے کیسے لکھنا ہے یہ سب ٹول کٹ کے توسط سے آسان ہو گیا ہے۔ مضمون تیار کر کے ہر متعلق شخص کو بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ من و عن یا کبھی جملوں کی ساخت میں معمولی ردوبدل کر کے گروپ میں آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔
کامیاب سیاست دان کی اصطلاح اپنے مفہوم میں مثبت پہلو رکھتی ہے اس لئے شاطر سیاست دان کہنا زیادہ مناسب ہے۔ ایسے سیاست دان ایسی چال چلتے ہیں کہ ہر کھلاڑی اسی پج پر کھیلنے کو مجبور ہوتا ہے۔
9/11 دہشت گردی حملے کے بعد اسلام کے خلاف بالخصوص عرب اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا نے ایسا پروپیگنڈا کیا کہ عام آدمی بھی مسلمانوں سے خوف زدہ نظر آنے لگا۔ امریکہ اور یورپ میں کافی عرصہ تک بہت سے مقامات پر مسلمان اور بالخصوص عربوں کو سماجی طور پر ایک حد تک سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لئے کہ ایک تو یہ میڈیا نے انہیں خوفزدہ کر رکھا تھا دوسرا یہ کہ اس تھنک ٹینک کا فرمان تھا کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا مخالف یعنی دشمن ہے۔
رفتہ رفتہ عوام کو حقیقت کا پتہ چلا اور لوگوں کو سمجھ میں آیا کہ دراصل یہ بین المذاھب نفرت کا معاملہ ہے جو حقیقت سے پرے ایک سیاسی چال ہے۔ اس طرح امریکہ اور یورپ میں عزلت گزینی میں کمی آئی اور دوبارہ inclusive society ( مختلف ادیان و ثقافت کا جامع اور شمولیت والا معاشرہ) اپنے ٹریک پر گامزن ہوا۔
کانگریس رہنما راہل گاندھی نے کہا کہ2014سے قبل ملک ماب لنچنگ کی اصطلاح سے واقف نہیں تھا۔ اس پر مخصوص ذہنیت کے لوگ برہم ہیں اور انہیں ٹرول کر رہے ہیں۔
کانگریس پارٹی ہو یا دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیاں، جب تک ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی ہوس نہیں چھوڑیں گے انہیں اسی پج پر کھیلنا ہوگا۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کاپی رائٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ دھرم کی سیاست جتنی اچھی بی جے پی کرتی ہے دوسری پارٹیاں نہیں کر سکتیں۔ اکثریتی فرقہ کی بہت بڑی تعداد کی نظر میں دیگر پارٹیوں کی دھرم کی راج نیتی وقتی ، مفاد پرستی اور چاپلوسی ہے۔ ان کا ہندوتوا مشکوک ہے۔
کانگریس پارٹی نے سافٹ ہندوتوا کا تجربہ کر کے دیکھ لیا کہ اسے ایک طرف اکثریتی طبقے نے چاپلوسی اور نقلی ہندوتوا قرار دیا تو دوسری طرف اس کی وجہ سے کانگریس نے اقلیتوں کا اعتماد کھو دیا اور اقلیتوں نے کہہ دیا کہ سیکولر آئیڈیالوجی کو نظر انداز کرنا دستور اور جمہوریت کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔
لیکن ہر حال اقتدار حاصل کرنے کی خواہش اور کوشش کے تحت سیکولر پارٹیاں اس پچ پر کھیلنا چاہتی ہیں جس پر کھیلتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنا ٹرولنگ کی دعوت دینا ہوتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)