تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
آفتاب اپنا سالانہ دورہ ایک اور ختم کرچکا۔ زمین اپنی سالانہ گردش کی ایک باری تمام کرچکی۔ اور خیر، آفتاب وزمین کی حرکتوں کے نظرئیے صحیح ہوں یا نہ ہوں، بہرحال یقینی ہے، کہ کاغذ کا یہ چھپنے والا پُرزہ اپنی جو عمر لے کرآیاہے، اُس میں ایک سال کے اور کمی ہوگئی۔ اِن سطور کے لکھنے والے کی مَوت ایک سال قریب آگئی، اور پڑھنے والوں کی مدت زندگی بھی ایک ایک سال اور گھٹ گئی۔ ملک کے سال سرکاری کا آغاز ہے۔ کتنی جگہ سال نو کا جشن مسرت منایا جارہاہے، اورکتنی جگہ سالگرہ کے ڈورے میں ہنستے اور کھلکھلاتے ہوئے چہروںکے ساتھ طنابیں پڑ رہی ہوں گی، کتنی جگہ خوشی اور شادمانی کے شادیانے بج رہے ہوں گے!پیارے دوستو اور عزیزو، سوچو اور سمجھو، کہ یہ موقع جشنِ مسرت کا ہے یا حسرت وماتم کا؟
اس ایک سال کی مدت میں کتنی نمازیں ضائع ہوئیں۔ کتنی نمازیں اس طرح پڑھیں، کہ اُن کا پڑھنا بمنزلہ نہ پڑھنے کا تھا۔ عبادتوں کے کتنے بہتر سے بہتر موقع ہاتھ سے جانے دئیے۔ کتنے فرائض تَرک کئے۔ کتنے سنن اور مستحبات کو بے توجہی سے کردیا۔ کان اورآنکھ ، ہاتھ اور زبان کے کتنے حدشمار سے خارج، گناہ سرزدہوئے۔ اپنے دوستوں ، عزیزوں، جاننے والوں کے کتنے حقوق تلف ہوئے۔ آنکھوں نے کتنی وہ چیزیں دیکھ ڈالیں جو دیکھنے کی نہ تھیں، کانوں نے کیا کچھ نہ سُن ڈالا، جو کسی طرح سننے کے قابل نہ تھا۔ زبان کتنی ایسی باتوں کھلی رہی، جن پر اُسے بند ہی رہنا چاہئے تھا۔ غیبت، بدگوئی، رشک، حسد، جھوٹ، دلآزاری، بدگمانی، حرص، سخت کلامی، تعلّی، خودبینی، خودنمائی، بخل، اسراف، نمائش، غرور، ریاکاری، گناہوں کی فہرست میں کونسا ایسا گناہ باقی رہا، جس کا ارتکاب باربار اور کثرت کے ساتھ نہ ہواہو……جس انسان کے سال بھر کایہ ’’ریکارڈ‘‘ ہو، جس کے سالانہ نامۂ اعمال کے اوراق یوں سیاہ ہوں، وہ سال کی فرصت ختم ہوجانے پر اگر اپنے نصیبوں کو نہ روئے ، توآخر کیاکرے!
گھڑی دوگھڑی نہیں، دِن دودِن نہیں، پورے تین سو پینسٹھ دن کی مدت، کوئی تھوڑی مدت ہے! اتنی طویل مہلت جو شخص محض نذر غفلت کردے، اس کی محرومیوں کا کچھ ٹھکانہ ہے؟ اُس کی بدنصیبیوں کی کوئی انتہاہے؟ اُس کی شوربختیوں کا کہیں علاج ہے؟ اگرشانِ عدل کا ظہور ہونے لگے، تو ایسے مجرم کو کہیں پناہ مل سکتی ہے؟ اگر انصاف کی داروگیر شروع ہوجائے تو ایسے خطاکار کو کوئی اپنے دامن میں لے سکتاہے؟ لیکن اے کریم وکارساز! تو ہی ہر دِل شکستہ کا آسرا، تو ہی ہر مایوس کی آخری امید ہے، تیرا عفو وکرم بے پایاں، تیرا لطف ونوازش بے حساب۔ تو اس پر قادر، کہ ایک سال کی نہیں، سالہا سال کی غفلتوں اور تباہ کاریوں کی سیاہی کو ایک دم میں مرحمت ومغفرت کی سفیدی سے بدل دے! عمر کے ہرسال کی طرح یہ سال بھی اگر نادانیوں اور نافرمانیوں کی نذر ہوگیا، تو کیا غم ہے، جودوعطا، لطف ورخا، رحم وکرم، مغفرت وبخشش کا بحر ناپیدکنار تو جوں کا توں قائم ہے ؎
روزہا گررفت، گورَو، باک نیست
تو بمال اے آنکہ چوں تو پاک نیست پا