انقرہ :(ایجنسی)
اقوام متحدہ نے ترکی کے تبدیل شدہ نام ’ترکیہ‘ کو منظوری دے دی۔ صدر اردوگان نے گزشتہ برس ہی اس نئے نام کے لیے مہم شروع کی تھی، انقرہ نے دیگر ممالک اور عالمی اداروں سے اب ملک کا نیا نام ترکیہ استعمال کرنے کی درخواست کی ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن جارک نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ترکی کا تبدیل شدہ نام ترکیہ فوراً نافذ العمل ہوگیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بدھ کے روز ترکی کی جانب سے اقوام متحدہ کو اس حوالے سے باضابطہ درخواست موصول ہوئی تھی جس میں جمہوریہ ترکی کا نام تمام دستاویزی کارروائیوں میں ’ترکیہ‘ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش کو ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو کی جانب سے درخواست موصول ہونے کے بعد اقوام متحدہ میں جمہوریہ ترکی کا نام ’ترکیہ‘ کے طور پر رجسٹرڈ کرلیا گیا ہے۔
نام تبدیل کرنے کا مقصد ری برینڈنگ
اقوام متحدہ کی جانب سے نام کی تبدیلی کی منظوری سے ایک روز قبل ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے ایک تصویر کے ساتھ اپنی ٹوئٹ میں لکھا تھا، ’’میں نے ایک خط سکریٹری جنرل کو بھیجا ہے جس میں اپنے ملک کا نام اقوام متحدہ میں غیر ملکی زبانوں میں ’ترکیہ‘ Turkiye کرنے کی درخواست کی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ نام تبدیل کرنے سے ’’ہمارے ملک کے برانڈ ویلو میں اضافہ کرنے کا عمل‘‘ تکمیل کو پہنچ جائے گا، جس مہم کا آغاز صدر رجب طیب ایردوآن نے کیا تھا۔
ترکی گزشتہ کئی برسوں سے اپنی مصنوعات کی برانڈنگ ‘ ’میڈ ان ٹرکی‘سے ’’میڈ ان ٹرکیہ‘‘ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ صدر رجب طیب اردوگان نے گزشتہ برس ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ تمام رسمی مراسلت اور کاروباری برانڈنگ میں ترکی کے بجائے ترکیہ کا لفظ استعمال کیا جائے۔
حالانکہ ترکی کے عوام کی اکثریت پہلے سے ہی اپنے ملک کو ترکیہ پکارتے ہیں لیکن اس کے باوجود انگریزی میں استعمال کیا جانے والا نام ترکی ملک کے اندر بھی کافی مقبول ہے۔ ترکی کے برآمد کنندگان کی تنظیم نے ملک کی مصنوعات پر جنوری 2020 سے ہی’میڈ ان ترکیہ‘ لکھنا شروع کردیا تھا۔
ترکی(Turkey) کو جب گوگل پر سرچ کیا جاتا ہے تو جمہوریہ ترکی کے سرخ پرچم کے ساتھ ہی ٹرکی نام کے ایک پرندے کی تصویر بھی سامنے آتی ہے۔ جسے امریکہ میں ‘’تھینکس گیونگ ڈے‘ کے موقع پر بڑے اہتمام کے ساتھ پکایا اور کھایا جاتا ہے۔ ڈکشنری میں ٹرکی کا ایک مفہوم ‘احمق اور بے وقوف شخص بھی درج ہے۔
صدر رجب طیب ایردوآن کے حکم نامے میں ترکی کو بدل کر ترکیہ کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ یہ لفظ ترک قوم کی ثقافت، تہذیب اور اقدار کی نمائندگی کرتا ہے۔ تاہم بعض مبصرین اسے ملک کی ری برینڈنگ کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پروفیسر مصطفی اکساکل نے نیویارک ٹائمز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’نام کی تبدیلی کچھ لوگوں کو مضحکہ خیز لگے گی لیکن یہ ایردوآن کو ملک کے محافظ اور بین الاقوامی احترام دلانے والے کردار کے طور پر پیش کرتا ہے۔‘
اخبار نے مزید لکھا ہے کہ یہ پیش رفت اگلے برس ہونے والے صدارتی انتخابات نیز عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد نئی مملکت کے قیام کے ایک صدی مکمل ہونے سے قبل ہوئی ہے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ اس سے قبل بھی کئی ملکوں کے ناموں میں تبدیلی کو منظوری دے چکا ہے۔