تحریر: مولانا عبد الحمید نعمانی
سنگھ کی سر پرستی اور اس سے الگ ہند و تووادی عناصر ملک میں جس طرح کا ماحول بنا رہے ہیں اور جس رنگ میں بھارت کی نقشہ گری کی مہم چلائی جا رہی ہے حتی کہ از سرنو تاریخ نویسی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اس کے تناظر میں کئی طرح کے سوالات اور ان کے جوابات پانے پر توجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے ۔ معروف ہندو مسلم تنظیموں اور شخصیات کی طرف سے اپنے اپنے نقطہ نظر کو پیش کر کے ملک میں در پیش مسائل کے حل کی تلاش کرنے کی کو ششیں ہو رہی ہیں ، حالیہ دنوں(30اکتوبر2021) میں دھارواڑ میں سنگھ کے آل انڈیا ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس کے اختتام کے بعد کئی قابل غور باتیں سامنے آئی ہیں ، گرچہ مرکز اور کئی ریاستوں میں سنگھ کی مرضی و مقصد کے مطابق سرکاریں ہیں تاہم اس کو لگتاہے کہ ابھی تک منزل تک رسائی نہیں ہو پائی ہے اس کے پیش نظر سنگھ ایگزیکٹیو بورڈ میں فیصلے کیے گئے ہیں کہ سنگھ کی سرگرمیوں کو تو سیع دی جائے۔
فی الحال 6483ترقیاتی بلاکس میں سے 4683 میں سنگھ کی موجودگی ہے۔2024ءمیں جب کہ لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں تو اس کے ماہ مارچ تک تمام ترقیاتی بلاکس تک رسائی کا پختہ پروگرام و عز م ہے ۔ سنگھ کی آئیڈیا لوجی سے وابستہ جوافراد پورے ملک میں اس کی بنیاد پر توسیع کرنے کے لیے 2سال تک رضا کارانہ طور پر کام کرنے اور 2025ءتک سنگھ کے سو سال پورے ہونے پر تمام ترقیاتی بلاکس میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ،کشمیر، لکش دیپ ،میزورم،ناگا لینڈ وغیرہ میں سنگھ کی سر گرمیاں نظر نہیں آتی ہیں ، یہ مطلوبہ سطح پر اس کے مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ ہے ۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے سنگھ کی طرف سے کئی جہات سے کوششیں کی جارہی ہیں ۔ ان پر حالیہ سہ روزہ اجلاس میں بھی غورو خوض کرکے منصوبہ بندی کی گئی ہے، گرچہ 55000 مقامات پر یومیہ شاکھائیں چلائی جارہی ہیں تاہم ان کو ناکافی تصور کرتے ہیں کچھ مزید جذباتی چیزوں کو پروگرام میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسی کے تحت تحریک آزادی کے حوالے سے کچھ گمنام ہیروز کے تعاون کے نام پر کچھ نمائشیں منعقد کرنے کا پروگرام بھی ہے اس سے گرو تیغ بہادر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے عنوان و بہانہ سے مختلف قسم کے پروگرام کو جوڑنے کا کام بھی ہے ۔
گرچہ سکھوں کی طرف سے خود کو برہمن وادی سمندر میں ڈبو دینے کی سنگھی کوششوں کی زبردست طریقے سے مزاحمت جاری ہے تاہم سنگھ اپنے اغراض و مقاصد کے مطابق آگے بڑھنے پر پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے ۔ سنگھ کی ایگزیکٹیو بورڈ کے کئی فیصلے سے فرقہ وارانہ پہلو کو ابھارنے کی کوششیں ہوتی نظر آتی ہیں ۔ ملک کی آبادی سے متعلق پالیسی ، دیوالی پر پٹاخوں پر پابندی سے اختلاف اور تیریپورا کے ہندو تووادی نفر ت انگیز حملے کو پوری طرح نظر انداز کر کے ، بنگلہ دیش کی ہندو اقلیت پر حملے اور تبدیلی مذہب کے معاملے کو جس رنگ ، ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے ۔ اس سے آنے والے دنوں کا نقشہ و نقوش بہت نمایاں ہو کر سامنے آگئے ہیں ۔ سنگھ سمیت دیگر تمام ہندوتووادی تنظیموں اور اشخاص کو اب بھی کئی طرح کے نظریاتی و عملی بحران اور آدرش کے عملی نمونے کو لے کر بنیادی سوالات کا سامنا ہے ۔ خود کے اندر مثبت بنیادوں کے فقدان نے خارج کے منفی متصادم مفروضہ بھیانک مناظر سے اکثریت کو دہشت زدہ کرکے اپنے ساتھ کرنے اور رکھنے کے لیے مجبور کر دیا ہے ، رجالی قحط اور مثبت نظریاتی بنیاد سے محرومی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جونا اکھاڑا جیسے وسیع ادارے کا مہا منڈ لیشور یتی نر سنہا نند جیسے اخلافی و فکری طور سے عاری آدمی کو بنا دیا گیا ہے ۔
جنوبی ریاست کیرل کے متعلق بی ، جے پی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر کے جے الفونس نے کہا کہ ریاست افغانستان بن رہی ہے اور یہان طالبان کا ماحول بنایا جارہا ہے، کیرل بی ، جے پی کے جنرل سکریٹری جارج کورین نے مرکزی وزیر داخلہ کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ ریاست میں جہادی سر گرمیوں پر روک لگائی جائے ۔ یتی نر سنہا نند جیسے درجنوں سادھو بن کر یہ شیطانی پروپیگنڈا کرتے پھر رہے ہیں کہ اگر ہندو شاستر اور شستر (ہتھیار)کے ساتھ اٹھ کھڑے نہیں ہوئے تو سناتن ہندو دھرم اور ہندو معرض خطر میں پڑ جائیں گے ، تو وہیں دوسری طرف مرکزی سرکا ر نے ناگپور کے موہنیش جبل پورے کے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں کہا کہ ہندو دھر م خطرے میں ہونے کی بات محض مفروضہ ہے ۔ خود کو خطرے میں ہونے کے مفروضہ کے پیش نظر ہی سنگھ کے 96 ویں یوم تاسیس کے موقع پر سنگھ سربراہ بھاگوت نے کہا کہ ہندوؤں کا طاقتور ہونا ضروری ہے اور طالبان سے الرٹ رہیں۔ ایسا انھوں نے وجے دشمی کے موقع پر کہتے ہیں ۔ وجے کے موقع پر کمزوری کی بات سرا سر بے دانشی ، شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے ۔ اس طرح کی سنگھ اور دیگر ساورکر اور جناح وادی عناصر کی طرف سے تشہیری مہموں کے پیش نظر ملک کی بڑی مسلم تنظیم جمعیة علماءہند نے ملک کے سامنے کئی سوالات رکھتے ہوئے غور وفکر اور افہام و تفہیم کے در کو از سر نو وا کرنے کا سامان بہم پہنچایا ہے۔ سوالا ت کچھ اس طرح ہیں۔
(1)دو قومی نظریہ کی بنیاد کس نے رکھی ؟(2)محمد علی جناح نے کب مسلم ریاست کا مطالبہ کیا؟(3)حضر ت مدنی ؒ نے تقسیم وطن کی مخالفت کب اور کیوں کی؟(4)کیا مولانا مدنی ؒ کا تنہا موقف تھا یا ان کے ساتھ افراد تھے؟(5)متحدہ قومیت کا مین تھیم کیا تھا؟(6)حضرت مدنی ؒ نے متحدہ ہندوستان کے قیام کے لیے کیا فارمولا پیش کیا تھا؟(7)پھر متحدہ قومیت کا نظریہ اور مدنی فامولہ کیوں ناکام ہوا؟(8)تقسیم وطن کے نتائج کیا ہوئے؟(9)دو قومی نظریہ اور اس کے مضمرات (10)اگر بر صغیر متحد رہتا تو اس کے فوائد کیا ہوتے ؟(11)اگر بر صغیر متحد ہوتا تو مسلمانوں کی ڈیمو گرافی کیسی ہوتی اور اس کے فوائد کیا ہوتے ؟(12)کیا ہندستان میں مسلمانوں کے رہنے کا فیصلہ غلط تھا؟(13)بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے ؟(14)کیا ملک کی اکثریت مسلمانوں سے متنفر ہے ؟(15)خاموش اکثریت کو ہم کس طرح اپنا ہمدرد بنا سکتے ہیں ؟(16)مسلمانوں کے سلسلے میں بڑھتی منافرت کا سد باب کیسے ہو؟(17)کیا جیسے کو تیسا والا رویہ درست ہے ؟(18)مسلم پولیٹیکل سربر آوردہ افراد کا طرز عمل اور اس کے نقصانات؟
ان سوالات میں جوابات پانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری اور انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم بھارت کے آئین کی تمہید کے بنیادی نکات پر توجہ مبذول کراتے ہوئے مسلسل سوال سے جواب اور جواب سے سوال تک رسائی پر زور دے رہے ہیں انھوں نے زبانی اور تحریری شکل میں ملک میں مذکورہ زیر بحث مسائل پر اپنے موقف کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے ،مختلف موضوعات پر اپنے اشاعتی ادارے سے کئی صد کتابوں سمیت (1) ہندو تو اہداف و مسائل (2) ساورکر ، فکر و تحریک (3)ہندوتوا اور راشٹر واد(4)سنگھ بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار حیات و تحریک کو اپنے مقدمے کے ساتھ شائع کر کے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت اور ملک کے آئین کے تحفظ کے تناظر میں فرقہ وارانہ خطوط پر جاری سرگرمیوں کے مضرات و خطرا ت سے آگاہی اور کرنے کے ضروری کاموں کی طرف بھی متوجہ کرنے کا کام کیا ہے۔
اس کے ساتھ معروف تحریک جماعت، جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سید سعاد ت اللہ حسینی نے ہندو تو کی فکری اساسیات کی نشاندہی اور ان کی پائیداری اور انسانی مقاصد کی تکمیل کے تناظر میں قابل توجہ تبصرے کرتے ہوئے کچھ بنیادی سوالات بھی اٹھائے ہیں ۔ انھوں نے بی، جے پی کی پیش رفت کے پس منظر میں دیگر پارٹیوں ، کانگریس، کمیونسٹ ، دلت ، سماج وادی ، سو شلسٹ پارٹیوں کی پس پائی کے اسباب کا حوالہ دیتے ہوئے ملی تنظیموں اور پارٹیوں کے پیچھے رہ جانے کی وجوہ کو بھی زیر بحث لانے کا کام کیا ہے ۔ بھارت کے آئین کے تمہیدی نکات اور شہریوں کے بنیادی حقوق و اختیارات کے تحفظ کے تناظر میں جب تک وسیع اجتماعی مفادات میں ماحول بناکر کام نہیں کیا جائے گا تب تک ملک کا صحیح منظر نامہ سامنے نہیں آسکتا ہے ۔
ملک میں جس طرح کا فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اس کے مد نظر ماضی ، حال کا بہتر نتیجہ خیز تجزیہ کرتے ہوئے ملک و ملت کے مسائل کے صحیح افہام و تفہیم وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ حالات و حقائق کو نظر انداز کر کے روشن مستقبل کی امید محض خوش فہمی ہوگی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)