لکھنؤ :(وقار عالم کی خاص رپورٹ)
اترپردیش اسمبلی انتخابات 2022 کے لیے انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے۔ لیڈر عوام کی عدالت میں ہیں، ووٹ مانگ رہے ہیں۔ لیکن سیاست کے اس نئے دور میں جتنا پبلسٹی ضروری ہے اتنا ہی ڈیٹا بھی۔ آج کل پارٹیاں ہر سیٹ پر ووٹ کا فارمولیشن دیکھ کر مزید حکمت عملی بناتی ہیں۔ پارٹیاں دیکھتی ہیں کہ کہاں انہوںنے کتنے مارجن سے انتخاب میں ہرااورجیتا۔اس کےحساب سے حکمت عملی بنائی جاتی ہے ۔
ہم نے پچھلے الیکشن سے کچھ اسی طرح کا ڈیٹا نکالا ہے۔ جس میں کچھ دلچسپ حقائق سامنے آئے۔ مثال کے طور پر 2017 کے اسمبلی انتخابات میں 77 سیٹیں ایسی تھیں جن پر ہار اور جیت کا فرق 10 ہزار ووٹوں سے کم تھا۔ اس کے علاوہ 47 نشستیں ایسی تھیں جن پر جیت اور ہار کا فرق 5 ہزار ووٹوں سے کم تھا۔ اسے تھوڑا اور چھوٹا کرکے دیکھیں تو 16 سیٹیں ایسی تھی جن پر 2017 کے اسمبلی انتخابات میں ہار -جیت کا فرق 2ہزار ووٹ سے کم تھا، اسے اگر اورچھوٹا کریں تو 2017 میں 7 سیٹیں ایسی تھی جن سیٹوں پر ہار جیت کا فرق ایک ہزار ووٹوں سے کم تھا۔
اب اسے ایسے بھی سمجھ لیں کہ سماج وادی پارٹی 16 سیٹوں پر دوسرے نمبر پر رہی جہاں ہار اور جیت کا فرق 5 ہزار ووٹوں سے کم تھا۔ ایسی 15 سیٹوں پر بی جے پی دوسرے نمبر پر ہے اور آر ایل ڈی ایسی ہی ایک سیٹ پر دوسرے نمبر پر تھی۔ اس کے علاوہ تین سیٹیں ایسی تھی جہاں اوم پرکاش راج بھر کی پارٹی ایس بی ایس پی دوسرے نمبر پر رہی تھی، لیکن ان سیٹوں پر ہار اور جیت کا فرق 10 ہزار ووٹوں سے کم تھا۔
اب ان میں سے کچھ سیٹیں ایسی ہیں جہاں پر فارمولیشن کافی دلچسپ ہو گیا ہے، کیونکہ پچھلی بار اوم پرکاش راج بھر کی پارٹی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر کے الیکشن لڑا تھا اور اب یہ سماج وادی پارٹی کے ساتھ ہے اور آر ایل ڈی نے 2017 میں اکیلے الیکشن لڑا تھا۔ اس کے علاوہ کئی لیڈر بھی اِدھر سے اُدھرجا چکے ہیں، تو ہم کچھ ایسی سیٹوں کے فارمولیشن دیکھیں گے جو کافی دلچسپ انداز میں بدلتے نظر آتے ہیں۔
میراں پور اسمبلی سیٹ
2017 کے اسمبلی انتخابات میں، میرا پور اسمبلی انتخابات سے بی جے پی کے ٹکٹ پر ہریانہ کے رہنے والے اوتار سنگھ بھڈانا (69.035) الیکشن جیتے تھے۔ دوسرے نمبر پر سماج وادی پارٹی کے لیاقت علی (68,842) تھے۔ بی ایس پی کے نوازش عالم خان (39,689) تیسرے نمبر پر تھے اور آر ایل ڈی کے متھلیش پال (22,751) چوتھے نمبر پر تھے۔ اس سیٹ پر جیت کا مارجن صرف 193 ووٹوں کا تھا۔ اس سیٹ کے فارمولیشن بھی کافی دلچسپ ہوتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ 2017 میں بی جے پی کے ٹکٹ پر جیتنے والے اوتار سنگھ بھڈانہ اب آر ایل ڈی کے ٹکٹ پر جیور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
اس بار سماج وادی پارٹی اور آر ایل ڈی اتحاد میں الیکشن لر رہے ہیں اور میراںپور اسمبلی آر ایل ڈی کے حصے میں آ ئی ہے۔ راشٹریہ لوک دل نے یہاں چندن چوہان کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ بی جے پی نے پرشانت گوجر کو میدان میں اتارا ہے، اس کے علاوہ بی ایس پی نے محمد سلیم کو میدان میں اتارا ہے۔
سہارنپور کی نکوڑ اسمبلی سیٹ
نکوڑ اسمبلی سیٹ پر 2017 کے مقابلے میں فارمولیشن کافی دلچسپ انداز میں بدل گئے ہیں۔ 2017 میں دھرم سنگھ سینی (94,375) بی جے پی کے ٹکٹ پر یہاں سے جیتے تھے اور کانگریس کے عمران مسعود (90,318) دوسرے نمبر پر تھے۔ اس سیٹ پر جیت اور ہار کا فرق 4057 ووٹوں کا تھا۔ لیکن یہاں فارمولیشنبہت ڈرامائی طور پر بدل گیا ہے، کیونکہ بی جے پی کے ٹکٹ پر جیتنے والے دھرم سنگھ سینی اب سماج وادی پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسرے نمبر پر رہنے والے عمران مسعود بھی سماج وادی پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ تاہم اب دھرم سنگھ سینی نکوڑ اسمبلی سے ایس پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں اور عمران مسعود ان کی ناراضگی کے باوجود سماج وادی پارٹی میں ہیں۔
شاہ گنج اسمبلی سیٹ
یہ سیٹ جونپور ضلع میں آتی ہے، جہاں 2017 میں سماج وادی پارٹی کے شیلندر یادو للائی جیت درج کی تھی، جبکہ ایس بی ایس پی کے رانا اجیت پرتاپ سنگھ دوسرے نمبر پر تھے۔ ویسے تو سماج وادی پارٹی 2002 سے مسلسل اس سیٹ پر جیت درج کررہی ہے۔ اس بار فارمولیشن ضرور بدل رہے ہیں، لیکن وہ بھی ایس پی کے حق میں جا رہے ہیں کیونکہ دوسرے نمبر پر ایس بی ایس پی کے امیدوار تھے، جنہوں نے اب سماج وادی پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ یہ سیٹ اب بھی سماج وادی پارٹی کے پاس ہے اور اس نے ایک بار پھر شیلندر یادو للائی کو میدان میں اتارا ہے۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی)