لکھنؤ :(ایجنسی)
انتخابی سنگرام کے آخری دروازے پر سینا آکر کھڑی ہو گئی ہیں۔ ذات پات کی مساوات میں الجھے ہوئے انتخابات میں منظر نامہ پوری طرح سے واضح نہیں ہے۔ بہت سے دعوے ہیں۔ لیکن، یہ بھی سچ ہے کہ دل کی دھڑکنیں سب کی بڑھی ہوئی ہیں۔ کل ملاکر حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کرو یا مرو کی صورتحال ساتویں مرحلے تک برقرار ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم موجودہ مساوات پر بات کریں، ہمیں 2017 کی پولنگ کو بھی دیکھنا ہوگا ۔ اس کے مضمرات کو بدلی ہوئی مساوات کے مطابق سمجھنا ہوگا۔ کڑی سے کڑی جوڑنے سے ہی واضح ہو جائے گا کہ چیلنج کیسا اور کتنا ہے ۔
2017 کی باتیں اس لئے اہم ہے کیونکہ اس کے پہلے دور میں پوروانچل کے ان اضلاع کو ایس پی کا گڑھ سمجھا رہا ہے ۔ مگر 2017 میں بھگوا لہر ایسی چلی کہ اس قلعہ کا زیادہ تر حصہ بکھر گیا ۔ کئی اضلاع میں بی جے پی آگے رہی، تو کچھ میں ایس پی کاغلبہ رہا۔ہوا ایسی تھی کہ ایس پی صرف 11 سیٹیں جیت سکی، جب کہ بی جے پی کو 29 اور اتحادی اپنا دل (ایس) نے 3، ایس بی ایس پی کو چار سیٹیں ملیں۔ ایک سیٹ نشاد پارٹی کے حصے میں آئی۔ اس طرح بی جے پی اتحاد نے کل 37 سیٹیں جیت کر اس کے ہی گڑھ میں ایس پی کو شکست دے کر اپنا پرچم لہرایا تھا۔
بی ایس پی کی بات کریں تو اس کے حصے میں بھی چھ سیٹیں آئیں تھیں۔ ساتویں مرحلے کی بات کرتے ہوئے، بی جے پی نے 54 میں سے 48 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، جب کہ اپنا دل (ایس) اور نشاد پارٹی 3-3 کے امیدوار میدان میں ہیں۔ ساتھ ہی ایس پی بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے ۔ ایس پی 45 سیٹوں پر اپنا امیدوار اتار ی ہے ، تو اتحاد کے طور پر ایس بی ایس پی 7 اور اپنا دل (کمراوادی ) دو سیٹوں پر الیکشن لڑرہی ہے ۔
بالادستی کی جنگ کا جائزہ لیا جائے تو اس سے بہت سی چیزیں واضح ہو جاتی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیر داخلہ امت شاہ اور پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا سمیت تمام مرکزی وزراء اور لیڈران آخری مرحلے کی سیٹوں کو جیتنے کے لئے تمام 9 اضلاع میں گھوم رہے ہیں ۔ وہیں ایس پی بھی غازی پور ،اعظم گڑھ ، مئو اور جون پور و بھدوہی جیسے اپنے گڑھ کو واپس پانے کے لئے پوری طاقت لگا رہی ہے۔ کس پارٹی کو کتنی سیٹیں ملیں گی، یہ تو انتخابی نتائج کے بعد ہی پتہ چلے گا، لیکن یہ بات طے ہے کہ الیکشن کے آخری مرحلے میں بننے والے سیاسی سنگرام کو فتح کرنا دونوں پارٹیوں کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے ۔
بڑا سوال: کیا ایس بی ایس پی کوئی اثر چھوڑپائے گی؟
اس بار مشرقی اتر پردیش میں مختار انصاری جیسے زیادہ تر مافیا چہرے میدان میں نہیں ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ اس سے بی جے پی کی راہیں بہت آسان ہوتی نظر نہیں آتیں۔
سماجی مساوات اور ذات پات کی ریاضی کی وجہ سے وارانسی سے بلیا تک کا میدان بی جے پی کے لئے 2014 سے پہلے چیلنجنگ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن، 2014 میں، نریندر مودی کے وارانسی پارلیمانی سیٹ سے لوک سبھا الیکشن لڑنے کے ساتھ ہی، اس خطے میں بی جے پی کا جھنڈا بلند ہونا شروع ہوا۔
2017 میں اس خطے کی 54 سیٹوں میں سے دو تہائی بی جے پی یا اس کی اتحادی پارٹیوںنے جیت کر یہ ثابت کردیا کہ مشرقی اترپردیش کا یہ علاقہ اب کمل کے لئے بنجر نہیں رہا ہے ۔ مگر تب بی جے پی کو اپنا دل کے علاوہ سہیل بھارتیہ سماج پارٹی کے لیڈر اوم پرکاش راج بھر کا ساتھ ملا تھا۔
اوم پرکاش راج بھر کی اپنی برادری میں کتنی پکڑ و پہنچ ہے ، یہ سوال اپنی جگہ ہے ، لیکن ساتویں مرحلے کے تحت آنے والی ان 54 سیٹوں میں زیادہ تر راج بھر ووٹر اچھی تعداد میں ہیں۔ کہیں کہیں ان کی آبادی 60 ہزار سے ایک لاکھ تکہے ۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ 2017 میں راج بھر برادری کا زیادہ تر ووٹ بی جے پی کے کھاتے میں گیاتھا۔ مگر اس بار فارمولیشن الگ ہے۔ حالانکہ اوم پرکاش راج بھر اپنی برادری کے 100 فیصد ووٹ ایس پی اتحاد کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں ، لیکن کئی سیٹوں پر بی جے پی بھی اسی برادری کے امیدواروں کو اتار کر مضبوط متبادل دینے کی کوشش کی ہے ۔
بی جے پی نے نشاد پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے اوم پرکاش راج بھر کی تلافی کی کوشش کی ہے، لیکن مشرقی اتر پردیش کی سیاست کو سمجھنے والوں کے مطابق 2017 کے انتخابات میں بھی بی جے پی کو زیادہ تر نشادوں کی حمایت ملی تھی۔ ایسے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نشاد پارٹی کی وجہ سے بی جے پی کو مزید کتنے نشاد ووٹ حاصل ہوں گے۔
پولرائزیشن کی کوششوں کا کیا اثر ہوگا؟
مختار انصاری اور ان کے بھائی صبغت اللہ نے خود الیکشن لڑنے کی بجائے اپنے ہی بیٹوں کو میدان میں اتارا ہے۔ مختار انصاری کا بیٹا عباس انصاری ایس بی ایس پی سے میدان میں ہے، جب کہ صبغت اللہ کا بیٹا منو انصاری ایس پی سے ہے۔ دونوں کا تعلق مختار خاندان سے ہے۔ مختار بھلے ہی میدان میں نہ ہوں لیکن ان کے خاندان والے ان کے نام پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی ان کے خلاف مکمل ماحول بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، راج بھر کے ووٹوں میں مسلم ووٹوں کو شامل کرنے کا ریاضی پوروانچل کی کچھ سیٹوں پر بی جے پی کے مساوات کو چیلنج کر سکتا ہے۔
کئی مرکزی وزراء کا بھی امتحان
اسمبلی انتخابات کے آخری مرحلے میں مودی حکومت کے 4 وزراء اور بی جے پی کے عہدیداروں کے سیاسی اثر و رسوخ کا بھی امتحان ہے۔ مرکزی وزیر انوپریہ پٹیل ریاست میں بی جے پی کی سب سے بڑی اتحادی جماعت اپنا دل (ایس) کی صدر بھی ہیں۔ 10 مارچ کو اعلان ہونے والے نتائج سے پتہ چلے گا کہ مودی حکومت کے وزراء اور پارٹی کے عہدیداروں کا اپنے سماج پر کتنا اثر ہے۔ ووٹوں کو متوازن کرنے میں ان کا اثر و رسوخ کتنا کام آیا؟
انوپریہ پٹیل کے کندھوں پر بڑی ذمہ داری
اپنا دل (ایس) کی صدر اور مودی حکومت میں وزیر مملکت انوپریہ پٹیل پر اس الیکشن میں بڑی ذمہ داری ہے۔ بی جے پی نے اتحاد میں اپنا دل کو 17 سیٹیں دی ہیں۔ بی جے پی نے انوپریہ کو انتخابی پلیٹ فارم پر پارٹی کے سب سے بڑے انتخابی چہروں کے برابر جگہ دی ہے۔ یہ انتخاب نہ صرف پوروانچل کے کرمی ووٹ بینک پر انوپریہ کے اثر و رسوخ کو جانچنے والا ہے بلکہ 2024 میں اتحاد میں اپنا دل کے کردار کا بھی فیصلہ کرے گا۔
مہندر ناتھ پانڈے:کتنا گاڑھا کر پائیں گے بھگوا رنگ
چندولی سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور مرکزی وزیر مہندر ناتھ پانڈے کے پارلیمانی حلقے میں چھ اسمبلی حلقے ہیں، جب کہ ضلع میں چار اسمبلی حلقے ہیں۔ 2017 میں، بی جے پی نے چندولی ضلع میں مغل سرائے، سیداراجا اور چاکیہ سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ ایس پی نے سکلڈیہہ میں کامیابی حاصل کی تھی۔ چندولی پارلیمانی حلقہ کے اجگرا اور شیو پوری اسمبلی حلقے وارانسی ضلع میں ہیں۔ پانڈے یوگی حکومت کے پانچ سالوں میں سے تقریباً دو سال تک بی جے پی کے ریاستی صدر بھی رہ چکے ہیں۔ بی جے پی نے پوروانچل میں اسٹار پرچارک بنایا ہے۔ پانڈے پر پوروانچل کے برہمنوں کی آبیاری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ضلع اور پارلیمانی حلقے کی سیٹ بچانے کی ذمہ داری ہے۔
ہردیپ سنگھ پوری کی ساکھ بھی داؤ پر
مرکزی وزیر پٹرولیم ہردیپ سنگھ پوری دوسری بار یوپی سے راجیہ سبھا کے رکن بنے ہیں۔ پوری نے سون بھدر کو اپنا نوڈل ضلع بنایا ہے۔ 2017 میں سون بھدر کی چاروں سیٹیں بی جے پی اتحاد کے پاس تھیں۔ تاہم پوری بی جے پی کی سیاسی سرگرمیوں میں براہ راست سرگرم نہیں ہیں۔ لیکن مرکزی وزیر ہونے کے ناطے نوڈل ضلع کے ساتھ سکھ سماج کی آبیاری کی ذمہ داری ہردیپ سنگھ پوری پر عائد ہوتی ہے۔
ارون سنگھ کے سیاسی اثر و رسوخ کا بھی ہوگا امتحان
بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری ارون سنگھ مرزا پور کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے اسمبلی انتخابات کے لیے پارٹی کا انتخابی روڈ میپ تیار کرنے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ ارون سنگھ نے پوروانچل کے کچھ اضلاع میں انتخابی میٹنگیں بھی کی ہیں۔ اس الیکشن میں ان کا سیاسی اثر و رسوخ کو بھی آزمایا جائے گا۔