تحریر: ڈاکٹر راشد شاذ
ہندوستانی مسلمان ایک عجیب مخمصہ کا شکار ہیں۔ غیر مسلم سیاسی پارٹیوں کے مولوی نما گماشتے جن کے جبہ و دستار سے یہ دھوکا ہوتا ہے کے شاید وہ اسلام اور مسلمانوں کی سر بلندی کے لئے سرگرم عمل ہوں، ایک بار پھر حرکت میں ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ مسلمان اگر چاہیں تو بی جے پی کو آزمانے میں بھی کوئی حرج نہیں اور کسی کا کہنا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کا مستقبل گٹھ بندھن کی حمایت میں ہی محفوظ ہے۔ ان کے جبہ و دستار پر نہ جائیے قرآن کی اصطلاح میں یہ دراصل وہ مذبذبین ہیں جو دونوں طرف رہتے ہیں: جب مسلمانوں کے ہاتھ کوئی کامیابی لگتی ہے تو اس کا کریڈٹ لیتے اور جب کافروں کا پلّہ بھاری رہتا ہے تو انہیں کہتے ہیں کہ ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچا لیا؛ و نمنعکم من المومنین۔ اب عام مسلمان حیران وپریشان ہے کہ وہ کفر اور کفر کی محاذ آرائی میں ان مولویانہ مشوروں کا کیا کرے۔ حالانکہ مسلم ووٹ کی بے وقعتی کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اس کے حصول کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش تو درکنار اسے کھلے عام قبول کرنے کے لئے بھی تیار نہیں۔عرصہ سے ان کے جلسوں میں رونق لگانے، جھنڈے اٹھانے اور دری بچھانے کا جو روایتی فریضہ آپ انجام دیتےآئے ہیں وہ اب آپ سے یہ کام بھی لینا نہیں چاہتے مبادا آپ کی چلت پھرت سے غیر مسلم ووٹوں کا نقصان ہو جاۓ۔ اس ہلا مارنے والی سیاسی تنہائی کے باوجود جو لوگ مسلمانوں کو خدمت کفر کے اسی بے کیف کام پر لگانا چاہتے ہیں تو ایسا اس لئے نہیں کہ انہیں آپ سے کوئی ہمدردی ہے بلکہ یہ سب کچھ ان کی پیشہ ورانہ مصروفیت کا حصہ ہے۔ انہیں اسی کام کی مہارت ہے، وہ کوئی دوسرا کام کر بھی نہیں سکتے۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ انتہائی حیرت اورعبرت کا مقام ہے کہ جس امت کے پاس قرآن مجید جیسی کتاب موجود ہو اس کے حاملین اس بات سے یکسر ناآگاہ ہوں کہ موجودہ صورتِ حال میں انہیں کیا کرنا چاہیے۔ وحی تو خیر بڑی چیز ہے۔ ہمارے علماء و دانشور اگر عقل کا ہی ڈھنگ سے استعمال کر لیتے تو انہیں یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ الکفر ملۃ واحدۃ ۔ سلمان خورشید جنہیں کانگریس کے محرمِ راز کی حیثیت حاصل ہے انھوں نے ایک بار برملا اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ کانگریس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں۔ مگر حقیقت تو یہ ہےکہ بقول شاعر
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
جو لوگ آج بی جے پی کا خیمہ چھوڑ کر گٹھ بندھن میں شامل ہونے کے لئے قطاروں میں لگے ہیں ان ہی لوگوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے توآپ کے دل میں بار بار گٹھ بندھن کی حمایت کا خیال آتا تھا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب صوبہ بہار میں مہاگٹھ بندھن کی بعض پارٹیوں نے، جو آپ ہی کے ووٹ سے فتح یاب ہوئی تھیں ، بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی تھی۔ اتر پردیش کا موجودہ گٹھ بندھن بھی اقتدار پر قبضہ کے علاوہ کوئی اور پروگرام نہیں رکھتا۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ آخری رسول کی امت جسے دنیا میں قیامِ انصاف کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اپنی ملی قوت اور افرادی سرماۓ کو کسی خاص فرد یا پارٹی کو برسر اقتدار لانے کے لئے وقف کردے۔ ایسا کرنا اپنے ملی فریضے سے پہلو تہی اور خدا کے غضب کو دعوت دینا ہوگا۔
اس ملک میں ہمارے پیشرو ٔوں نے اس سے پہلے بھی بعض سنگین غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے جس کی سزا ہم بحیثیت قوم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہماری ملی اور سیاسی قوت کا میزانیہ مسلسل روبہ زوال ہے۔ آزاد اور مدنی نے، جنہیں اکبر الہ آبادی کی اصطلاحِ مستعار میں گاندھی کی گوپیاں کہنا شاید زیادہ قرین حقیقت ہو، میثاقِ مدینہ کو سمجھنے میں سخت غلطی کی۔ اقبال کا یہ محاکمہ آج بھی درست معلوم ہوتا ہے کہ عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ۔ ہمارے علماء اس بات کو یکسر نظر انداز کر گئے کہ میثاقِ مدینہ میں سیادت کی کمان مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی جبکہ آزاد ہندوستان میں مسلمان پوری طرح غیر مسلموں کے رحم و کرم پر رہ گئے تھے۔ خود ان حضرات کی نگاہوں کے سامنے قانون ساز اسمبلی کے مجوزہ مسودہ میں دور رس تبدیلیاں کی جاتی رہیں اور یہ حضرات کمالِ بے بسی سے اپنی محرومی کا تماشہ دیکھتے رہے۔ آج بھی اس ملک میں کسی مسلم سیاسی قوت کے احیاء کا راستہ جمہوری اور قانونی موشگافیوں نے مسدودکر رکھا ہے۔ لوک سبھا کی 48 مسلم نشستوں میں سے 24 نشستیں درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص کر دی گئیں ہیں۔ اس ملک مسلمان ایک سیاسی قوت کے طور پر تو نہیں ابھر سکتے، ہاں ان کے خلاف نفرت انگیز مہم سیاسی کامیابی کی ضمانت ضرور دے سکتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اس فارمولے کا جس کمال عیاری کے ساتھ استعمال ہوتا رہا ہے اس کے بعد توقع تو یہ تھی مسلمانوں کی بالغ نظر قیادت دشمنوں کے ترکش سے اسلام د شمنی کا یہ تیر کسی طرح کھینچ لیتی۔ کاش کہ ہم مسلمانوں کی منھ بھرائی اور ان کے بادشاہ گر ہونے جیسے مغالطہ آمیز پروپیگنڈے کا سدباب کرنے کے لئے من حیث الامت یہ فیصلہ کر تے کہ اس ملک میں نفرت کی آندھی کو روکنے کے لئے ، چند سالوں کے لئے ہی سہی ،ہم سیاسی میدان سے کنارہ کش ہوجا ئیں گے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کی مہم دم توڑ جاتی بلکہ دشمنوں کے خیمے میں جہاں متصادم نظریات اور نسلی تفریق کو مسلم دشمنی کے پردے میں چھپایا گیا ہے، داخلی تصادم کی صورتِ حال پیدا ہو جاتی۔ لیکن افسوس کہ ان مولوی نما گماشتوں نے، جو ہر الیکشن کے موقع پر اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر حرکت میں آ جاتے ہیں ہم فقیروں کو بادشاہ گر ہونے کی ایسی افیم کھلائی کہ ہمیں اصل صورت حال کا بالکل ہی اندازہ نہ ہو سکا۔مسلمانوں کی منھ بھرائی جیسے بے بنیاد پروپگنڈے سے اقوامِ غیر کے دلوں میں ہمارے لئے نفرت اور رقابت کے جذبات پیدا ہو ۓ اور اس سے دعوت اسلامی کے کام کو بھی سخت نقصان پہنچا۔ مسلمان محض ایک قوم بن کر رہ گۓ، رحمت للعالمین کا نبوی منصب ان کی پہنچ سے بہت دور رہ گیا۔
آج جب مسلم ووٹ اورمسلمانوں کی حمایت کا حصول غیرمسلم سیاسی پارٹیوں کو گھاٹے کا سودا معلوم ہوتا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ داڑھی، ٹوپی اور برقع جیسی علامتیں ان کے اسٹیج سے دکھائی دیں۔ ہماری غیرت ملی کے لیے اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم خاموشی سے اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں اور ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ ہمارے ملی زوال اور ہماری سیاسی بے وزنی کا آخر سبب کیا ہے؟ آخر یہ کیسے ہوا کہ جو لوگ سیادتِ عالم کے منصب پر فائز کیے گئے تھے وہ رفتہ رفتہ ایک ایسے مقام پر جا پہنچے جہاں آج ان سے جھنڈا برداری کا کام لینا بھی اقوام غیر اپنے لئے گھاٹے کا سودا سمجھتی ہیں۔ جب اندھیرا گہرا ہو اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا ہو تو عقل کا تقاضا ہے کہ غلط سمت میں آگے بڑھنے کی بجائے اپنے قدم فی الفور وہیں روک لیں۔
رسول اللہ کی ایک حدیث ہے کہ فتنہ کے وقت ، یعنی کنفیوژن کی صورتِ حال میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے اور کھڑا رہ جانے والا چلنے والے سے بہتر: القاعد فيها خير من القائم، والقائم خير من الماشي۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)