نئی دہلی :
اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے نتائج حالانکہ 10 مارچ کو آئیں گے، لیکن اس سے ٹھیک پہلے ایگزٹ پولز بتاتے ہیں کہ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) ایک بار پھر ریاست میں بہت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔
تمام ایگزٹ پولز میں بی ایس پی کو زیادہ سے زیادہ 24 سیٹیں ملنے کا اندازہ ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ 403 سیٹوں کے ساتھ اتر پردیش میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔
2017 کے اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کو صرف 19 سیٹوں پر جیت ملی تھی لیکن اس کے ایم ایل اے اور بڑے لیڈروں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور اس کی وجہ سے پارٹی بہت کمزور ہو گئی ہے۔
اترپردیش کے پورے الیکشن کے دوران یہ کہا گیا کہ اگر بی ایس پی کمزور ہوگی تو اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور اسی طرح اگر بی ایس پی مضبوط ہوئی تو اس کا نقصان ایس پی کو ہوگا۔ الیکشن کے دوران مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے بی ایس پی کو لے کر دئے گئے بیان کی کافی بحث ہوئی تھی۔
لیکن ایگزٹ پول بتاتے ہیں کہ بی ایس پی کمزور ہو رہی ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں، بی ایس پی، جس کا ایس پی کے ساتھ اتحاد تھا، نے اتر پردیش میں 10 سیٹیں جیتی تھیں اور یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ پارٹی ایک بار پھر مضبوط ہو رہی ہے۔ لیکن مایاوتی نے ایس پی سے اتحاد توڑ دیا اور اس بار وہ تنہا انتخابی میدان میں اتریں۔
یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر بی ایس پی کی کارکردگی ایسی ہی رہی تو پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا جیسا کہ ایگزٹ پول میں بتایا گیا ہے۔
ووٹ بینک میں نقب
بی ایس پی اب تک ون مین آرمی رہی ہے۔ یعنی پارٹی کی سپریمو مایاوتی پارٹی کی واحد اور عالمگیر لیڈر ہیں اور پارٹی ان کی ہدایت پر چلتی ہے۔ لیکن اگر اس اسمبلی الیکشن میں پارٹی کی کارکردگی پھر سے خراب رہی تو شاید مایاوتی کے لیے پارٹی کو مضبوط پوزیشن میں واپس لانا بہت مشکل ہوگا۔ کیونکہ بی جے پی اور ایس پی نے اس کے حامیوں کے دلت ووٹ بینک کو بڑا نقصان پہنچایا ہے اور مایاوتی کا کرشمہ اب نظر نہیں آرہا ہے۔
سوشل انجینئرنگ کاملے گا فائدہ؟
2007 میں اپنی سوشل انجینئرنگ کی بنیاد پر اترپردیش میں اکیلے حکومت بنانے والی بی ایس پی کو اس بار بھی کوئی بڑا کھلاڑی نہیں سمجھا جا رہا ہے، لیکن پھر بھی یہ ضرور تھا کہ اپنی سوشل انجینئرنگ سے وہ دلتوں ، برہمنوں اور مسلمانوں کے ووٹوں کے دم پر کنگ میکر بن سکتی ہیں ۔ لیکن ایگزٹ پول کے نتائج ایسا ہونے کی گواہی نہیں دیتے۔ایسے میں سوال پھر وہی ہے کہ اس پارٹی کو کون سنبھالے گا؟
آکاش آنند وراثت سنبھالیں گے
اس میں ایک نام مایاوتی کے بھائی آنند کمار کے بیٹے آکاش آنند کا ہے۔ آکاش آنند کو مایاوتی نے بی ایس پی کا نیشنل کوآرڈی نیٹر بنایا ہے اور انہیں اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے دوران کئی ریاستوں میں پارٹی کی تنظیم کو مضبوط کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
اگر اتر پردیش میں نتائج ایگزٹ پول کے مطابق ہیں، تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بی جے پی کے طاقتور رہنے تک بی ایس پی کا یہاں پر اقتدار میں لوٹ پانامشکل ہو گا ۔ ایسے میں ہو سکتا ہے کہ مایاوتی نے ایک حکمت عملی کے تحت اپنے بھتیجے آکاش آنند کو دوسری ریاست میں بھیجا تاکہ وہاں بی ایس پی کے لئے کچھ حمایت حاصل کر سکے۔
چندر شیکھر آزاد کی طرف سے چیلنج
مایاوتی کو اترپردیش میں بھیم آرمی اور آزاد سماج پارٹی سے بھی بڑا چیلنج ملا ہے۔ آزاد سماج پارٹی کے صدر چندر شیکھر آزاد مایاوتی کے جاٹو برادری سے آتے ہیں اور پچھلے کچھ سالوں میں انہوں نے دلت اور پسماندہ رائے دہندوں میں ایک اہم بنیاد بنائی ہے۔
اتر پردیش جیسی بڑی ریاست میں ایک وقت میں مضبوط سیاسی پوزیشن رکھنے والی بی ایس پی دوبارہ اس مقام تک پہنچ پائے گی یا نہیں، یہ سوال مایاوتی اور کانشی رام کے حامیوں کے ذہنوں میں مسلسل اٹھ رہا ہے۔
یہ دیکھنا ہوگا کہ اتر پردیش کے انتخابات کے کیا نتائج آتے ہیں اور مایاوتی پھر 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے بی ایس پی کو کیسے کھڑا کرتی ہیں۔