تحریر: اجے کمار( لکھنؤ)
اتر پردیش میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ جہاں برسراقتدار بی جے پی اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، وہیں اپوزیشن جماعتوں کے رہنمااقدار کی چابی اپنے قبضے میں لانے کو یوگی سرکار کے خلاف مسلسل سرگرمی پیدا کئے رکھنے کی کوشش کررہےہیں۔ پوری اپوزیشن پارٹیوں نے یوگی سرکار کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے مورچہ کھول رکھاہے ،لیکن سیاسی ماہرین حیرت کااظہار کررہے ہیں کہ کیونکہ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈر عوام کے درمیان اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کے بجائے بی جے پی کے ذریعہ طے کئے گئے ایجنڈے پر ہی آگے بڑھ رہےہیں ۔
ریاست میں بی جے پی نے ہندوتوا کا ایسا سیاسی ایجنڈا سیٹ کیا ہے ،جس کے سبب اپنے آپ کو سیکولر کہلانے والی اپوزیشن پارٹیاں بھی اس بار کھل کر مسلم کارڈ کی سیاست کرنے سے پرہیز کررہی ہیں۔ غیر مسلم ووٹ کھسکنے کے ڈر سے اپوزیشن پارٹیوں کے انتخابی پلیٹ سے بھی مسلم ووٹروں کے حق میں ایساکوئی بیان نہیں دیا جا رہا ہے جس سے ہندو ووٹر ناراض ہوجائے۔ مسلمانوں ووٹروں کو تقریباً لبھانے کی بجائے کی بھرپائی کرلینا چاہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب کی بار اسمبلی انتخابات میں کسان بڑا فیکٹر رہنے والاہے ۔
اب کی بار ایک نیا ٹرینڈ یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ کانگریس- سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی تک نے نوراتروں میں ہی اپنے انتخابی اجلاس کی شروعات کی۔ پرینکا گاندھی سے لے کر اکھلیش یادو ، مایاوتی اور جینت چودھری تک نے اپنے انتخابی تشہیر کی شروعات نوراتری کے مہینے سے کرکے ہندوتوا ووٹروں کو بڑا پیغام دینے کی کوشش کی ہیں۔ ریاست میں انتخابی پلیٹ فارم چاہے اکھلیش یادو کا ہو، پرینکا گاندھی کا ہو یا پھر بس ایس پی سپریمو مایاوتی کا تمام پلیٹ فارموں پر اہمیت سے جومسلم چہرے یا مسلم علامت پہلے نظر آتی تھی، وہ اس بار تقریباً غائب ہیں ۔
پرینکا گاندھی اسٹیج پر بابا وشوناتھ کے چندن کے ساتھ للکار رہی ہیں ۔ تقریر کی شروعات کے پہلے درگا سپتشتی کے منتر پڑھتی ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے قیام سے لے کر پچھلی اسمبلی انتخابات تک کی انتخابی اجلاس اور ایس پی کے پوسٹروں میں کئی مسلم چہرے اور مسلم ٹوپی لگائے لیڈر نظر آتے تھے ،لیکن اب سب غائب ہوگیاہے ۔ اس بار ایس پی لیڈروں کی تصویر ہویا خود لیڈر موجود ہو مسلم علامت والی جالی ٹوپی میں نظر نہیں آتی ہے ۔ ہندو ووٹروں کے درمیان غلط پیغام نہ جائے اس لئے اعظم خاں جیسے پرانے سماج وادی لیڈر کے حق میں کھڑنے ہونے سے پارٹی پرہیز کررہی ہے ۔ اب تو سماج وادی پارٹی کے تمام مسلم لیڈر بھی سفید جالی والی ٹوپی کی جگہ پارٹی لال ٹوپی میںہی نظر آتے ہیں۔ ایسا ہی حال کانگریس کے انتخابی اکلاس کا ہے ۔ کانگریس کےاجلاس میں بھی مسلمان تو نظر آتے ہیں لیکن وہ اپنی مسلم شناخت کو بڑھاوا دینے کے چکر میں نہیں رہتے ہیں ؤ
مسلم سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ یوپی میں ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس مسلمانوں کو ووٹ تو لینا چاہتی ہے ، لیکن مسلم لیڈر شپ کو آگے نہیں بڑھانے دینا چاہتی ہے۔ یہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے انتخابی ایجنڈے میں بھی اس بار مسلم شامل نہیں ہے۔ اس لئے نہ تو مسلمانوں کے مسائل پر کوئی بات کررہا ہے اورنہ ہی مسلم لیڈروں کو اپنے ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے توہندو ووٹر کے منتشر ہونے کا ڈر رہتاہے ۔ ایسے میں اپوزیش پارٹی کے ایجنڈے سے مسلم سیاست گھٹتی جا رہی ہے ۔ اترپردیش میں 2017 کے انتخاب کے پہلے تمام پارٹیاں مسلمانوں کے ارد گرد اپنی سیاست کرتی رہتی تھیں ۔ مسلم ووٹروں کو لبھانے کے لئے تمام بڑے وعدے کرنے کے ساتھ ساتھ مولانا اور علماء کا بھی سہارا لیتی رہی ہے، مگر بی جے پی کے سیاسی پچ پر مضبوط ہونے کے بعدمسلم سیاست حاشیہ پر کھڑی نظر آرہی ہے ۔ اسدالدین اویسی ضرور مسلم ووٹوں کے سہارے ریاست میں سیاسی زمین مضبوط کرنے میں مصروف ہیں ۔
غور طلب ہو، یوپی میں تقریباً 20 فیصد مسلم ووٹرہیں ، جو ریاست کی کل 143 سیٹوں پر اپنا اثر رکھتے ہیں۔ ان میں سے 75 سیٹوں پر مسلم آبادی 20 سے 30 فیصد کے درمیان ہے۔ 78 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان 30فیصد سے زیادہ ہے ۔ ریاست کے قریب تین درجن ایسی اسمبلی سیٹیں ہیں جہاں مسلم امیدوار اپنے دم پر جیت درج کراسکتے ہیں جبکہ تقریباً 107 اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں جہاں اقلیتی رائے دہندگان انتخابی نتائج کو خاصا متاثر کرتے ہیں ۔ ان میں زیادہ سیٹیں مغربی اترپردیش ، ترائی والے علاقے اور مشرقی اترپردیش سے ہیں۔ آزادی کے بعد نوے کی دہائی تک اترپردیش کے مسلم ووٹر کو کانگریس کا روایتی ووٹر سمجھا جاتا تھا، لیکن رام مندر تحریک کی وجہ سے مسلم کمیونٹی کانگریس سے دور ہوئی تو سب سے پہلی پسند ملائم سنگھ یادو کے مایاوتی کی بی ایس پی کو اہمیت دی ۔ انہی دونوں پارٹیوں کے درمیان مسلم ووٹ تقسیم ہوتے رہے لیکن اس بار مسلم سیاست پوری طرح سے حاشیہ پر کھسکتی نظر آرہی ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)