تحریر: عبدالسلام عاصم
مذہبی منافرت کے خلاف سزا اور جزا تک محدود اقدامات بر صغیر کو پرتشدد قتل اور ماب لنچنگ سے مستقبل قریب میں نجات دلاتے نظر نہیں آتے۔ پاکستان میں مبینہ اہانت اسلام /توہین رسالت اور ہندستان میں بظاہر اسلاموفوبیا کی شکل اختیار کرتی ماب لنچنگ سے انسانی زندگی کا تقدس جس بری طرح پامال ہو رہا ہے اُس کے ازالے کی کوشش محض دھر پکڑ اور مقدمات و سزا تک محدود قانونی کارروائیوں سے کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔
بالفرض اِس رُخ پر کامیابی اگر مشکل سے ناممکن مرحلے میں داخل ہو گئی تو یہ کثرت میں وحدت کے کمزور اور ضعیف ہوتے تصور کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتی ہے۔ اصل میں ہمارے معاشرے میں نفرت پر مبنی پُرتشدد قتل اور ماب لنچنگ کو درکار سازگار ماحول فراہم کرنے والے کرداروں کو نہ صرف کھلی چھوٹ حاصل ہے بلکہ اُن کا ضرورتاً اور مصلحتاً احترام بھی کیا جاتا ہے۔ یہ منافقانہ طرز ِعمل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے سمِ قاتل ہے اور دونوں ملکوں میں یہی بالترتیب المیہ اور وڈمبنا ہے۔
سیکولرزم کو اسلام کیلئے خطرہ سمجھنے کی ناعاقبت اندیشی نے جہاں پاکستان کو مذہبی اور لسانی تنگ نظری میں مبتلا کر کے دولخت کر دیا وہیں دکھاوے کی اقلیت نوازی کی شکل میں سیکولرزم کے ساتھ سابقہ حکمرانوں کی شعبدہ بازی نے وطن عزیز میں اکثریت کے دل سے زیادہ ذہن میں ایک بے بنیاد خوف پیدا کر دیا۔ موجودہ حکومت میں بظاہر اِس خوف کا بالکل اُسی طرح ہوا کھڑا کر کے اُسے بھنایا جا رہاہے جس طرح کل تک سیکولرزم کی دہائی دے دے کر اُس کا کچومر نکال دیا گیا۔
نظریات و عقائد پر مبنی ادیان اور حقیقی علم کیلئے درکار اذہان کے مابین کشاکش واقعاًہر عہد کا حصہ رہا۔ اِس کشاکش کے خونریز انجام کی تاریخ اب پہلے سے زیادہ واضح اور گوگل پربا آسانی دستیاب ہے۔ تو کیا ایک صحتمند معاشرے کے قیام کیلئے اس سے اہلِ معاملات اجتماعی استفادہ نہیں کر سکتے! اگر جواب نہیں ہے تو سمجھ لیں کہ مذہبی جنونی اور نام نہادمصلحین سب اپنے اپنے محدود مفادات کیلئے ملے ہوئے ہیں اور اِس بھیانک سازش کی قیمت عوام الناس کو اس وقت تک چکانے پر مجبور رہنا ہوگا جب تک حسبِ ماضی فطرت بغاوت نہ کر بیٹھے۔ اگر ایسا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک امر ہے اور دنیا کے ایک حلقے کی علمی ترقی پر بھی ایک بدنما داغ ہے جو عقائد پرستوں کیلئے عیش اور طیش کیاسامان فروش کرنے والے بن کر رہ گیا ہے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔
پچھلے دنوں پاکستان میں اہانت کے الزام کا شور مچتے ہی دنیاوی آسائشوں اور تفریحات سے محروم حلقے نے تشدد کو انجوائے کرنے کی لہر کو مارنے کاٹنے سے آگ لگانے تک دراز کر کے اُن سرخیوں میں جگہ بنالی جو بدقسمتی سے اخباری صنعت کی ریڑھ کی ہڈی بن گئی ہیں۔ وطن عزیز میں بھی وقفے وقفے سے کچھ اس طرح کے واقعات ہو جاتے ہیں جس میں اصل توہین انسان کی ہوتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے واقعات کے فوراً بعد سانحے کے راست اور بالواسطہ ذمہ دار حلقے حسبِ توفیق و تجارت مذمت پر اتر آتے ہیں۔ کوئی نفع اور نقصان کا حساب لگا کر کہتا ہے کہ دین یا دھرم بدنام ہو گیا تو کوئی اپنا داغدار دامن چھپا کر چیختا ہے کہ ملک پر داغ لگ گیا۔ سیالکوٹ کا تازہ سانحہ ہندو یا مسلمان پر نہیں اُس انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے جسے مٹانے کی کوشش میں ہر تاخیر برصغیر کو خون رُلاتی رہے گی۔ آنسو اور خون کی بین مذاہب الگ الگ پہچان نہیں ہوتی۔
اتنا تو سبھی جانتے ہیں کہ پُر تشدد قتل اور ماب لنچنگ کرنے والوں کی ذہنی کنڈیشننگ کرنے کے ذمہ دارآسمان سے نہیں اُترتے۔ وہ ہمارے ہی گھروں میں پیدا ہوتے ہیں اور ہماری بین فرقہ نفرتیں جب اُن کو پروان چڑھاتی ہیں تو وہ تقدس اور احترام کے خانے سے انسانی جان کو الگ کر کے بائی ڈیفالٹ پہچان کے تعلق سے جارحانہ یا مدافعانہ قدم اٹھانے لگتے ہیں۔ اُن کے زیر اثر آنے والے بچے مسلسل نفرتوں میں پلنے کی وجہ سے صرف جسمانی طور پر ہی بالغ ہو پاتے ہیں۔ خواہ وہ نرے جاہل ہوں یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اُن کو رٹا ہوا ٹیکنیکل اور ڈیجٹل علم حاصل ہو گیا ہو، وہ شعوری طور پر انسانی زندگی کے تئیں حساس نہیں ہو پاتے۔ سر دست ترقی پذیر دنیا کا ایک بڑا حصہ اَس کے نتائج کا سامنا کر رہا ہے۔
یہ منظر نامہ کیسے بدلے گا! اِس کے لئے بنیادی اور ابتدائی طور پر کیا کیا جائے!! اِس پر اب روایتی طریقے سے سوچنا بند کیا جائے اور انہی اختراعی اذہان کا سہارا لیا جائے جن کے ذریعہ دنیا کی تسخیر کے رُخ پر جاری سفر میں فطری وسائل کے استعال کے فائدے کے بعد اس کے نقصان بشمول گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انسان کے ذہنی نشو ونما کا سارا انحصار پرورش پر ہے۔ اِسی لئے ماں کی گود کو بچوں کا اولین مکتب قرار دیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر ہر ماں ایک ایسی انفرادی معلمہ ہے جو شیر خوار بچوں کی وہ زبان سمجھ سکتی ہے جو دوسرا کوئی اور کسی شعبے کا عالم نہیں سمجھ سکتا۔ اِسی مرحلے سے کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ بہ الفاظ دیگر بچیوں کو کسی احساس کمتری سے نکال کر احساس برتی میں مبتلا نہیں کرنا یعنی اُنہیں کسی انتہائی مظلوم کردار یا کسی خاتون سورما کی داستانوں میں اُلجھا کر ایک پستی سے دوسری انتہا کی طرف نہیں لے جانا بلکہ بچوں کی معتدل پرورش کے آداب سکھانے ہیں۔ اُنہیں اِس فرق سے باہر نکالنا ہے کہ جو کام لڑکی کر سکتی ہے وہ لڑکا نہیں کر سکتا یا گھر کی دنیا کسی اور کیلئے ہے اور باہر کی دنیا کسی اور کیلئے۔ یہ کام شرم، حیا، احترام، محبت اور قربت کو صنفی دائرے سے باہر نکال کر ہی ممکن ہے۔ اِس کام کے مشکل ہونے سے ناچیز کو مطلق اختلاف نہیں لیکن ذہن اور دل کی ہم آہنگی صحتمند ہو تو ہر مشکل کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ اس کی عملی مثال ہمارے ڈاکٹر، انجنیئر اور سائنس داں ہیں جو بالترتیب معذور کو اہل بناکر، کھائی کوبھرنے کے بجائے اُسے پُلوں کے ذریعہ بالا بالا عبور کرکے اورآسمان میں پرندوں کی طرح خوش سمت پرواز کو مشکل سے آسان بناکر زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب کی تحریک دیتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کایا پلٹ تبدیلی کے لئے مسمار یا منہدم کئے جانے والے سماجی ڈھانچے کے بچے کھچے حصے کو بھی گرانا ضروری ہوتا ہے۔ اطمینان بخش تعجب کی بات یہ ہے کہ فطرت یہ کام انہی لوگوں سے لیتی ہے جو بدلنا نہیں چاہتے،جمود پر اڑے رہنا چاہتے ہیں اورزمانے کی رفتار سے ہم آہنگ کسی بھی اصلاحی سوچ کو مداخلت پر محمول کر کے اُس کی مخالفت کرتے ہیں۔اُن کا یہ راست رویہ بالواسطہ انہدامی لہر کی شدت کو اور بڑھاتا ہے۔ عصری منظرنامہ کچھ اسی طرح کا ہے۔
ابتدائی تعمیراتی مرحلے چونکہ نہایت کھردرے ہوتے ہیں اس لئے کافی تکلیف پہنچاتے ہیں۔ اِس کا ادراک وہی لوگ کر سکتے ہیں جو کتابیں رٹنے کے بجائے پڑھتے ہیں اور جب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ سے گزرتے ہیں تو اُن پر کائنات کی تشکیل کا مقصدِ ایزدی پوری طرح واضح ہوجاتا ہے اور پھر وہ زندگی کو سزا اور جزا تک محدود رکھنے کے بجائے اس کے حیات بخش تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔
ابراہیمی ادیان کے ایک سے زیادہ گھرانوں نے اِس کا ادراک کرکے ہی کایاپلٹ تبدیلیوں کی راہ ہموار کی تھی اور پھر اس پر حسبِ توفیق چل بھی پڑے تھے۔ رکاوٹیں پیش آتی رہیں اور دور بھی ہوتی رہیں۔ ویسے بھی گمراہیوں کا مقدر مٹنا اور ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔ ان کا یہ سفر پرنٹنگ کے عہد سے شروع ہوا تھا جو آج جی پی ایس کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ ستاروں سے آگے چونکہ جہاں اور بھی ہیں، اس لئے طے ہے کہ یہ سفر مقصدِ کُن کی حتمی تکمیل تک جاری ہے گا۔ استفادہ کرنے والی دوسری بڑی براہیمی ملت اسلامیہ نے شروع میں چونکنے، مسترد کرنے اور پھر اپنانے، نہ اپنانے کے مخمصے سے گزرنے کے بعد اب انسانوں کے ذریعہ خدا کی جانب سے متعین کردہ راہ پر کہیں لڑکھڑا کر تو کہیں سنبھل کر چلنا شروع کر دیا ہے۔ یہودیوں اور مسیحیوں کے بعد اب کم سے کم غیر جنوب ایشیائی مسلمانوں میں بھی (بعد از خرابی بسیار) بیداری کا جذبہ پیدا ہونے لگا ہے۔
وطن عزیز میں مذہبی شدت پسندی سے کوئی تعلق نہ رکھنے والے ہندو اور مسلمان دونوں ان دنوں سخت پریشان ہیں۔ادیان کی فہرست میں غیر سامی نظر آنے والے ہندو مت میں بدقسمتی سے نفرتیں سرائیت کر گئی ہیں۔ برصغیر میں ہندووں اور مسلمانوں کو اِس رُخ پر بیدار ہونے کی فوری ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے مذہب کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ واقعہ ہے کہ کتابیں رٹوانے والے اب تک ہمیں صرف دوسروں کی خامیاں ہی بتاتے رہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ کسی کو بھی کافر،مشرک یا ملیچھ قرار دینے کی روایتی گرفت نے ہمیں ماننے سے جاننے تک کا سفر مکمل کرنے ہی نہیں دیا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)