گزشتہ 30 برس سے مسلم ووٹر سینزل شیفر ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہیں اور تسلسل سے ہر پرائمری، وسط مدتی اور صدارتی الیکشن میں اسی جماعت کے امیدواروں کو ووٹ دیتی آرہی ہیں۔
لیکن رواں سال نومبر میں ہونے والے الیکشن میں وہ ڈیموکریٹک پارٹی سے اپنا یہ دیرینہ تعلق ختم کر دیں گی۔ شیفر جیسے مسلم امریکی ووٹرز کے لیے اسرائیل اور حماس کی جنگ روکنا اولین ترجیح ہے۔
نارتھ ورجینیا سے تعلق رکھنے والی افغان مسلم ٹیک ایگزیکٹو شیفر بائیڈن اس تنازع سے متعلق بائیڈن حکومت کے طرزِ عمل سے ناخوش ہیں اور اپنا ووٹ تھرڈ پارٹی امیدوار کو دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
ایک انٹرویو میں شیفر کا کہنا تھا کہ ’’ایک امریکی ووٹر کے طور پر میرے لیے شاید یہ سب سے مشکل فیصلہ ہوگا۔‘‘
شیفر تنہا ایسا نہیں سوچتیں۔ لگ بھگ گیارہ ماہ سے جاری غزہ جنگ نے روایتی ڈیموکریٹک ووٹنگ بلاک کو متحد یا تقسیم کیا ہے جو 35 لاکھ سے زائد مسلم امریکیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
جہاں ایک جانب مسلم ووٹرز غزہ جنگ کو اہم ترین مسئلہ سمجھتے ہیں وہیں امیدواروں سے متعلق ان کی آرا تقسیم ہیں کیوں کہ ایک بڑی تعداد میں یہ ووٹر دونوں بڑی پارٹیوں کے نامزد امیدواروں کے اسرائیل کی حمایت کے مؤقف سے ناراض ہیں اور تھرڈ پارٹی آپشن کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
کونسل آن امیرکن اسلامک ریلیشنز (کیئر) کے 25 تا 29 اگست کے دوران کرائے گئے ایک سروے کے مطابق نائب صدر کاملا ہیرس اور اسرائیل کے پر زور ناقد گرین پارٹی کے امیدوار جل اسٹین کو 29، 29 فی صد کی حمایت حاصل ہے۔
ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرنے والے 11 فی صد ہیں اور تھرڈ پارٹی کے دیگر دو امیدواروں کی حمایت 10 فی صد بھی کم ہے جب کہ 16 فی صد کسی فیصلے پر نہیں پہنچے ہیں۔
یہ سروے انتخابی دوڑ کے متعلق اس سے قبل کیے گئے جائزوں کا تسلسل ہے اور اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ غزہ جنگ کے باعث ڈیموکریٹس کے لیے مسلمانوں کی حمایت میں کس طرح کمی واقع ہوئی ہے۔
سال 2020 کے انتخابات میں جیتنے والے صدر بائیڈن کو 65 مسلم ووٹ ملے تھے۔ رواں برس اس حمایت میں واضح کمی واقع ہوئی کیوں کہ سات لاکھ ڈیموکریٹک پرائمری ووٹرز میں سے سوئنگ اسٹیٹس میں زیادہ تر مسلمانوں نے بائیڈن کو ووٹ نہیں دیا۔
ایسے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد کسی تیسرے امیدوار کے بارے میں سوچ رہی ہے یا ووٹ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔
ایک مسلم ریسرچ گروپ انسٹی ٹیوٹ فور وشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ(آئی ایس پی یو) نے جولائی میں ایک سروے کرایا تھا جس میں انہیں ’سوئنگ مسلم ووٹرز‘ نام دیا گیا تھا۔
ادارے کے مطابق غزہ تنازع سے متعلق ان ووٹرز کے تحفظات سے ہم آہنگ پالیسیز کے ذریعے ان کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔
آئی ایس پی یو کے ڈائریکٹر ریسرچ سحر سیلود کے مطابق جو بھی امیدوار غزہ میں جاری جنگ سے متعلق پالیسی میں تبدیلی اور جنگ بندی سے متعلق موقف ایسے پہلو ہیں جو امیدواروں سے متعلق مسلم ووٹرز کے انتخاب پر اثر انداز ہوں گے۔
صدارتی انتخاب میں تین ماہ سے بھی کم کا عرصہ باقی ہے اور تا حال یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ’سوئنگ مسلم ووٹرز‘ کسی کی حمایت کا فیصلہ کریں گے۔
فلسیطینوں سے متعلق کاملا ہیرس کے موقف کو بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ ہمدردانہ تصور کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم ووٹرز میں ان کی حمایت صدر بائیڈن سے زیادہ ہے۔
لیکن ایکٹیوسٹ اس سے بڑھ کر چاہتے ہیں۔ وہ جنگ بندی اور اسرائیل پر اسلحے کی پابندیوں کے لیے زور دے رہے ہیں۔
ریاست وسکونسن سے تعلق رکھنے والے ایک مندوب رومن فرٹز کا کہنا ہے کہ ’’مجھے نہیں معلوم کے اظہارِ ہمدردی سے ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن پالیسی سے ضرور ووٹ ملیں گے۔‘‘
ان کے مطابق ہیرس جنگ بندی اور ہتھیاروں پر پابندی کے بغیر نومبر میں وہ ووٹ حاصل نہیں کر پائیں گی جن کی انھیں ضرورت ہے۔کاملا ہیرس اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کے مطالبے کی مخالف ہیں البتہ جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کی حمایت کرتی ہیں۔ہیرس والز کمپین کے ترجمان نے وی او اے کے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’ نائب صدر ہیرس اس وقت زیرِ غور غزہ میں مستقل جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کی حامی ہیں۔‘‘ حالیہ مہینوں میں ہیرس کی کمپین نے کمیونٹی سے اپنے رابطے بڑھائے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کمپین مینیجر جولی شاویز روجریگز نے مشی گن میں عرب اور یہودی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ہیرس کمپین کے ترجمان کے مطابق ہیرس فلسیطینی، مسلم، اسرائیلی اور یہودی کمیونٹیز سے ملاقاتیں جاری رکھیں جس انداز میں وہ بطور نائب صدر ان سے ملتی رہی ہیں۔ری پبلکن امیدوار ٹرمپ کے مسلم کمیونٹی سے رابطے اور میل جول بظاہر محدود ہے۔ ٹرمپ حکومت کے اعلیٰ عہدے دار اور ٹرمپ کے داماد رواں برس کے آغاز میں مشی گن کے عرب رہنماؤں سے ملے تھے۔پبلکن پارٹی کی جانب جھکاؤ رکھنے والے مسلمان سابق صدر ٹرمپ کے ان دعوؤں کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے دور میں دنیا زیادہ پرُ امن اور محفوظ تھی۔ حقائق کی تصدیق کرنے والے اس دعوے کی درستی پر سوال اٹھاتے ہیں۔(وائس آف امریکہ)