نئی دہلی :
انگریزی اخبار دی ہندو میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مذہبی آزادی کا جائزہ لینےوالےایک امریکی پینل ’ ایو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم ( یو ایس سی آئی آر ایف) نے مسلسل دوسرے سال یہ تجویز دی ہے کہ سال 2020 میں سب سے زیادہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے بھارت کو ’کنٹریز آف پارٹی کلر کنسنر ‘ یعنی سی پی سی کی فہرست میں ڈالا جانا چاہئے۔
دوسری تجویز یہ دی گئی ہے کہ انتظامیہ کو بین المذاہب مکالمہ ، دوطرفہ اور کثیرجہتی فورموں پر ہر برادری کے مساوی حقوق کو فروغ دینا چاہئے۔
اس کے علاوہ امریکی کانگریس کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ امریکہ اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات میں اس معاملے کوبار بار سنوائی کے ذریعہ، خطوط اور ایک وفد تشکیل دے کر اٹھایا جانا چاہئے۔
حالانکہ کمیشن کی سفارشات کو ماننے کے لیے انتظامیہ پابند نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ سال بھارت کو سی پی سی کی فہرست میں شامل کرنے کی یو ایس سی آئی آر ایفڈ کی سفارش کو مسترد کردیا تھا۔
2021 کی رپورٹ میں جن امور پر کمیشن نے تشویش کا اظہار کیا ہے اس میں سب سے اہم شہریت ترمیمی ایکٹ ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے ،’دہلی میںہوئے فسادات کے دوران ہندو بھیڑ کو کلین چٹ دی گئی اور مسلم عوام پر ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا گیا۔
این آر سی سے متعلق اس رپورٹ میں کہا گیا ہے ، آسام میں تعمیر بنائے گئےبڑے ڈٹینشن کیمپ آنے والے وقت میں مزید تباہی لائیں گے۔
بین مذہبی شادیوں کو روکنے کے لئے اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں لائے گئے قانون کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ بین مذہبی تعلقات کو نشانہ بنانے اور اسے غیر قانونی بنانے کی وجہ سے ، غیر ہندوؤں پر مزید حملے بڑھ گئے ہیں اور ان کی گرفتاریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ‘
مارچ 2020 میں تبلیغی جماعت مرکز کے حوالہ سے جو بات کہی گئی کہ کووڈ-19 وبائی امراض کے آغاز میں اپنا طرز عمل جاری رکھتے ہوئے حکومتی نمائندوں اور عہدیداروں نے نفرت بھری بیان بازی کی اوراقلیتی طبقوں کو ٹارگیٹ کرتے رہے۔