مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اذان عبادت کا اعلان بھی ہے اور بجائے خود ایک عبادت بھی؛ اسی لئے اسلام میں اذان کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسلام سے پہلے مختلف مذاہب میں مروجہ عبادت کی اطلاع کے لئے مختلف طریقے مروج تھے، بعض قومیں گھنٹے بجاتی تھیں، اور اب بھی بجاتی ہیں بعض ناقوس بجایا کرتے تھے، بعض آگ سلگایا کرتے تھے، غور کیا جائے تو گھنٹوں کی آواز بہت تیز ہوتی ہے، اور کانوں کے لئے بوجھ بن جاتی ہے اور آگ کا دھواں فضائی آلودگی پیدا کرتا ہے، اور اس سے بھی قرب وجوار کے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، پھر یہ کہ یہ طریقے علامت کا کام تو کرتے ہیں؛ لیکن ان میں کوئی روحانی کیفیت نہیں، جس میں خالق ومالک کی بندگی کی طرف دعوت دی جاتی ہو، نہ اس کا کوئی ذکر اور نہ اس کی عظمت وبڑائی کا کوئی بیان، اسلام نے نماز جیسی عبادت کے اعلان کے لئے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جس میں روحانیت بھی ہے، معنویت بھی اور اللہ کی کبریائی کا اعلان بھی، اذان کے کلمات اتنے وجد آفریں اور روح پرور ہیں کہ کئی لوگوں کے لئے قبول اسلام کا سبب بن چکے ہیں، اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کومسلم آبادی کی شناخت مانا گیا ہے۔
بدقسمتی سے ابھی ہندوستان میں لاؤڈاسپیکر پر اذان کو نزاعی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یقیناََ اس میں متعصب ذہن، فرقہ وارانہ پروپیگنڈوں اور نفرتوں کا دخل ہے؛ لیکن بعض پہلوؤں پر خود ہمیں بھی غور کرنے کی ضرورت ہے:
الف:دینی کاموں میں جہاں آواز کا استعمال ہوتا ہے، اس کے بارے میں اسلام کا تصور کیا ہے؟ غور کیا جائے تو اسلام کی تمام تعلیمات میں اعتدال اور میانہ روی کو پیش نظر رکھا گیا ہے، اور اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ہمارا کوئی عمل دوسروں کے لئے اذیت کا سبب نہ بن جائے؛ اسی لئے شریعت نے بلا ضرورت اور حد اعتدال سے بڑھ کر آواز بلند کرنے کو ناپسند کیا ہے، خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ چال میں اعتدال رکھو اور آواز کو ہلکی رکھو (لقمان: ۱۹) قرآن مجید کی تلاوت سے بڑھ کر کیا عمل ہو سکتا ہے؛ لیکن اس میں بھی آپ نے میانہ روی اختیار کرنے کا حکم فرمایا اور ہلکی آواز میں تلاوت کو پسند کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں معتکف تھے، آپ کے قیام کے لئے مسجد کے اندر چمڑے کا ایک گنبد بنا دیا گیا تھا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ لوگ زور زور سے قرآن پڑھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی: تم اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کر رہے ہو تو ایک دوسرے کو تکلیف مت پہنچاؤ، اور نماز میں قرآن پڑھتے ہوئے ایک دوسرے پر اپنی آواز بلند مت کرو ۔ (مستدرک حاکم ، حدیث نمبر:۱۱۶۹) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ کے دولت خانہ سے متصل مسجد کا صحن تھا تو ایسی آواز میں آپ تلاوت فرماتے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دولت کدہ میں تلاوت فرماتے تو صحن کی حد تک اس کو سنا جا سکتا تھا، (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۱۳۲۷)
ایک بار رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ بہت ہلکی آواز میں نماز پڑھ رہے ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے تو وہ بہت بلند آواز میں نماز پڑھ رہے تھے، بعد میں جب یہ دونوں حضرات خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکرؓ سے دریافت کیا :میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم بہت ہی ہلکی آواز میں نماز پڑھ رہے تھے، انھوں نے عرض کیا: میں جس ذات کے ساتھ سرگوشی کر رہا تھا، اس نے سن لیا تھا، پھر حضرت عمرؓ سے دریافت فرمایا :تم بلند آواز میں کیوں تلاوت کر رہے تھے؟ انھوں نے عرض کیا :اللہ کے رسول! میں سوئے ہوئے کو جگا رہا تھا، اور شیطان کو بھگا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکرؓ سے فرمایا: تم اپنی آواز ذرا بلند کرو، اور حضرت عمرؓ سے کہا :تم اپنی آواز ذرا ہلکی کرو،(مستدرک حاکم، حدیث نمبر: ۱۱۶۸) اس سے معلوم ہوا کہ عبادت اور نیک عمل میں بھی آواز کو معتدل رکھنے کا حکم ہے؛ تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ پہنچے، فقہاء نے بھی اس کو پیش نظر رکھا ہے، اس لئے کہا ہے کہ نماز میں جہاں زور سے قرأت کرنے کا حکم ہے، وہاں زور سے قرأت کرنا چاہئے؛ لیکن اس حد تک کہ سونے والے کی نیندمیں خلل نہ ہو، یہ حکم تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے بھی ہے اور تراویح اور جہری نمازوں کی امامت کرنے والوں کے لئے بھی: والجھر افضل مالم یؤذ نائما ونحوہ (النہر الفائق: ۱؍۲۲۹)
اسی اصول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہمی ملاقات وکلام میں بھی منطبق فرمایا؛ چنانچہ حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تشریف لاتے اور اس طرح سلام کرتے کہ جو لوگ بیدار ہوں، وہ سن لیں، اور جو سوئے ہوئے ہوں ان کی نیند میں خلل پیدا نہ ہو (الادب المفرد، حدیث نمبر: ۱۰۲۸)
ب:اذان چوں کہ عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ عبادت کا اعلان بھی ہے، اعلان کا مقصد لوگوں کو سنانا اور ان تک اپنی آواز پہنچانا ہے؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز میں اذان دینے کی تلقین فرمائی ہے ؛ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو اذان کی ذمہ داری سونپی اور ان کو نصیحت کی کہ اذان دیتے وقت وہ اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں رکھیں؛ کیوں کہ اس سے آواز بلند ہوتی ہے: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمر بلالا أن یجعل إصبعیہ فی أذنیہ، وقال: إنہ أرفع لصوتک (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۷۱۰) ؛ لیکن اس میں بھی اس بات کو پسند نہیں کیا گیا کہ آواز اتنی بلند ہو کہ لوگوں کے لئے باعث تکلیف ہو جائے، اور خود اذان دینے والے کے لئے مشقت کا باعث ہو: ولا یبالغ فیجھد نفسہ کی لا یتضرر(دررالاحکام: ۱؍۲۲۲، نیز دیکھئے: النہر الفائق: ۲؍۷۲) اگر انسان صرف اپنی آواز میں اذان دے، آواز بڑھانے کے لئے کوئی آلہ استعمال نہ کرے تو آواز حد اعتدال سے باہر نہیں جاتی؛ کیوں کہ انسان کے اندر آواز بلند کرنے کی صلاحیت محدود ہے؛ لیکن جس کسی بھی آواز کے لئے جب لاؤڈاسپیکر کا استعمال ہوتا ہے تو آواز غیر محدود ہو جاتی ہے، اور اتنی اونچی بھی ہو سکتی ہے کہ انسان کے کان بجنے لگیں، اور اگر کوئی شخص کان کا یا قلب کا مریض ہو تو اس کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، گانے بجانے اور ڈی جے وغیرہ میں تو یہ کیفیت ہوتی ہی ہے، گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریر کرنے والے مقررین بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں ایک ایک محلہ میں کئی کئی مسجدیں ہیں، میرا ایک مسلم محلہ میں قیام ہے،عموماََ فجر کے و قت تقریباََ نصف گھنٹہ تک اذان کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ ساری اذانیں مائک پر نہایت بلند آواز میں ہوتی ہیں؛ حالاں کہ نماز پڑھنے والے زیادہ دور سے نہیں آتے، مسجد کے اڑوس پڑوس کے ہی ہوتے ہیں۔
ج:پھر اس پر مزید اضافہ یہ ہے کہ بعض مسجدوں سے اذان واقامت کے درمیان مسلسل اعلان ہوتا رہتا ہے کہ فلاں مسجد میں جماعت کے لئے اب پندرہ منٹ رہ گئے ہیں، اب دس منٹ باقی ہیں، اب پانچ منٹ باقی ہیں، اب صرف تین منٹ رہ گئے ہیں………اذان جتنے وقت میں ہوتی ہے، یہ اعلان اس سے زیادہ وقت لے لیتا ہے، بعض مسجدوں میں نماز کے بعد کے اوراد اذکار بھی مائک پر پڑھے جاتے ہیں، قرآن وحدیث کا درس بھی مسجد کے اندرونی مائک کے بجائے بیرونی مائک پر دیا جاتا ہے، اور پورے محلہ میں اس کی آواز گونجتی رہتی ہے، بعض جگہ تراویح کی نماز بھی مائک پر ہونے لگی ہے، جمعہ کا بیان بھی بعض مسجدوں میں بیرونی مائک میں ہوتا ہے، اور بعض اوقات اس کی آواز باہم ٹکراتی رہتی ہے، لاؤڈاسپیکر کا اس طرح مبالغہ آمیز استعمال بیماروں، معذوروں اور مختلف کاموں میں مشغول لوگوں کے لے باعث تکلیف ہو سکتا ہے، اگر کسی محلہ میں مسلم وغیر مسلم ملی جلی آبادی ہو، یا جہاں چند گھر مسلمانوں کے اور بڑی آبادی غیر مسلموں کی ہو ، وہاں دینی افعال کی اس طرح ادائیگی برادران وطن کے لئے تکلیف کا باعث ہو جاتی ہے، اور یہ ایک فطری بات ہے ، اگر کوئی مسلم محلہ ہو اور اس میں دیر تک مندر کی گھنٹیاں بجیں تو ہمیں ناگوار خاطر ہوتا ہے، اسی سے غیر مسلم بھائی کے احساس کو سمجھنا چاہئے۔
یہ بات ہمارے ذہن میںہونی چاہئے کہ ’’ اذان‘‘ دینا نہایت اہم اور ضروری عمل ہے، مگر مائک پر اذان دینا ایک الگ بات ہے؛ اگرچہ ہمیں فرقہ پرستوں کی اذان کے خلاف یورش کا مقابلہ کرنا چاہئے؛ لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق خود بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارا عمل اعتدال پر مبنی ہو ، یہ سوچنا کہ فلاں قوم کے لوگ بھی تو شور شرابہ کرتے ہیں، شادیوں اور الیکشن کے پروگراموں میں بھی تو بلند آواز متلاطم موجوں کی طرح فضاء میں بہتی رہتی ہیں، پھر ہم ہی کیوں اپنی آواز کو ہلکی کریں، درست نہیں ہے، نہ ہمارے لئے یہ درست ہے کہ ہم دوسری قوموں کی نقل کریں اور نہ یہ صحیح ہے کہ ہمارا عمل رد عمل پر مبنی ہو، ہمیں شریعت کے مزاج کو سامنے رکھ کر کام کرنا چاہئے، جس میں اعتدال اور دوسروں کو ایذا سے بچنے کا قدم قدم پر خیال رکھا گیاہے۔
اس لئے اذان اور مسجد کے پروگراموں کے سلسلہ میں ہمیں درج ذیل نکات پر عمل کی کوشش کرنی چاہئے:
۱۔اگر ایک محلہ مین کئی مسجدیں ہوں تو ایک بڑی مسجد میں بیرونی مائک پر اذان دی جائے، اور اس میں بھی خیال رکھا جائے کہ آواز بہت تیز نہ ہو، اتنی ہو کہ پڑوس کے لوگوں تک پہنچ جائے، بقیہ مسجدوں میں اذان اندرونی مائک میں دی جائے، یا مسجد کے باہر بغیر مائک کے دی جائے، ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے زمانہ میں اذان بغیر مائک کے ہی دی جاتی تھی، بعض فقہاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہر مسجد میں اذان واجب نہیں ہے، مستحب ہے، محلہ کی کم سے کم ایک مسجد میں اذان دینا واجب ہے: فھو واجب فی البلد والحیی ولیس بواجب فی کل مسجد (المناسک فی شرح المؤطا مالک: ۲؍۳۲۳) یہ رائے اگرچہ امام مالکؒ کی ہے؛ مگر اس سے یہ بات تو اخذ کی جا سکتی ہے کہ ہر مسجد میں مائک پر اذان ضروری نہیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مائک میں اذان دینا نہ واجب ہے نہ سنت ، اور نہ بغیر مائک کے اذان دینے میں کوئی کراہت ہے؛ اس لئے یہ ایک بہتر شکل ہوگی کہ محلہ کی ایک بڑی مسجد میں لاؤڈاسپیکر میں اذان ہو اور بقیہ مسجدوں میں زبانی اذان ہو جائے۔
۲۔اسپیکر کی سیٹنگ میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ بیرونی مائک کا رُخ غیر مسلم آبادی یا ہاسپیٹلوں کی طرف نہیں ہو؛ تاکہ یہ دوسروں کے لئے تکلیف کا سبب نہ بنے۔
۳۔اذان اور اقامت کے درمیان مزید اعلان سے گریز کیا جائے، آج کل ہر شخص کے پاس موبائل میں الارم کی سہولت ہے، بار بار وقت یاد دلانے کی ضرورت نہیں، اور تجربہ یہ ہے کہ اس بار بار کی یاددہانی کے باوجود مسجد وہی لوگ آتے ہیں، جو پابند نماز ہوتے ہیں، اور ان کے لئے بار بار کی تنبیہ کی ضرورت نہیں ہوتی، فقہاء کے یہاں اس میں بھی اختلاف ہے کہ اذان کے بعد پھر بہ تکرار نماز کا اعلان جس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ تثویب‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، جائز ہے یا مکروہ؟ اسلئے یہ بار بار کا اعلان ایک بے فائدہ عمل ہے۔
۴۔مسجدوں میں ہونے والے بیانات، قرآن مجید کا درس، حدیث شریف کا درس، تلاوت، جہری نمازوں کی قرأت کو مسجد کے اندرونی مائک میں ہونا چاہئے، ان امور کو مسجد کے بیرونی مائک میں انجام دینا کراہت سے خالی نہیں؛ کیوں کہ اس سے قرآن مجید اور دینی باتوں کی بے احترامی ہوتی ہے، قرأت ہوتی رہتی ہے، قرآن وحدیث کے مضامین نشر ہوتے رہتے ہیں، اور لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگ قضاء حاجت کی حالت میں ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس میں قرآن مجید اور دینی باتوں کی بے احترامی ہے۔
۵۔عام جلسوں میں بھی ان نکات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، جلسے میں حسب ضرورت مائک کا استعمال ہو اور قانون کے اعتبار سے جو اوقات مقرر ہیں، اتنی ہی دیر جلسہ رکھا جائے۔
غرض کہ ہمارے دین نے ہر کام کے لئے سلیقہ سکھایا ہے، طریقۂ کار کی رہنمائی کی ہے،اگر اس کے دائرہ میں رہتے ہوئے، اس عمل کو انجام دیا جائے تبھی یہ اطاعت واتباع کی صورت ہوگی، وباللہ التوفیق۔