تحریر:آننت پرکاش
کانگریس لیڈر راج ببر نے ہفتہ کو ایک ٹویٹ کیا اور بی جے پی کی اعلیٰ قیادت سے ایک ایسا سوال پوچھا جو ان کے لیے مشکل سمجھا گیا۔ راج ببر نے لکھا، ’ہر جگہ چہرے کی سیاست کرنے والی بی جےپی- یوپی میں کنفیوژن کیوں ہے؟ یوگی جی سی ایم کے عہدے کا چہرہ ہیں نا؟‘
بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے لکھا، ’وزیر داخلہ نے لکھنؤ میٹنگ میں ڈپٹی سی ایم کی تعریف ایسے کی جیسے وہ اس بار بی جے پی کا چہرہ ہوں۔ اگلے ہی دن وزیر اعظم شاہجہاں پور میں وزیر اعلیٰ کو پروجیکٹ کرتے ہیں۔
تاہم راج ببر کچھ عرصے سے اتر پردیش کی سیاست میں سرگرم نہیں ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنے ٹویٹ میں جس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اتر پردیش میں بی جے پی کی بدلتی ہوئی انتخابی حکمت عملی کے بارے میں واضح کرتا ہے۔
الگ موقع – الگ حکمت عملی
پچھلے سات آٹھ سالوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات سے جڑی بی جے پی کی حکمت عملی کو دیکھیں تو ایک طرح کا پرامڈ(اہرام) نظر آتا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی اس پرامڈ میں سب سے اوپر ہیں اور پھر ایک منظم انداز میں قومی، علاقائی اور حالات حاضرہ کا نمبر آتا ہے۔
بی جے پی کی یہ کوشش رہتی ہے کہ انتخابات میں خاص کر اسمبلی انتخابات میں آمنے سامنے کا ٹکر نہ ہو تاکہ بی جے پی کو ملنےوالا ووٹ بکھر ے نہیں اور جو ووٹ اس کے کھاتے میں نہ آئے وہ پورا ووٹ کسی ایک پارٹی کے اکاؤنٹ میں نہ چلا جائے ۔ یہی نہیں، مودی اور شاہ کی قیادت والی بی جے پی نے پہلے پہل تو وزیر اعلیٰ کے عہد کے امیدوار کا نام ظاہر نہیں کرتی ہے۔ اگر ایک بار کر بھی دیا جائے تو بی جے پی اس کے نام پر الیکشن نہیں لڑتی ہے۔ لیکن اترپردیش کے اس اسمبلی انتخاب میں بی جے پی اس حکمت عملی سے ہٹ کر کام کرتی نظر آرہی ہے ۔
اس سمت میں پہلا بیان امت شاہ کی طرف سے آیا کہ ’’اگر 2024 میں مودی جی کو وزیر اعظم بنانا ہے تو 2022 میں یوگی جی کو ایک بار پھر وزیر اعلیٰ بنانا پڑے گا‘‘۔ اس ایک بیان سے بھی بی جے پی کی حکمت عملی میں تبدیلی نظر آنے لگی۔ کیونکہ اس بیان میں پی ایم مودی کی خاطر یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیراعلیٰ بنانے کی بہت واضح طور پر درخواست کی گئی تھی۔
اترپردیش کی سیاست کی گہری سمجھ رکھنے والے سینئر صحافی سنیتا آرون کاماننا ہے کہ بی جے پی ضرورت کےمطابق اپنی حکمت عملی بنا رہی ہے ۔
وہ کہتی ہیں، ’بی جے پی اس انتخاب میں جگہ اور پروگرام کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی بنا رہی ہے۔ جیسے ابھی ابھی ایک بیان سامنے آیا ہے کہ یوگی جی اپیوگی (کارآمد) ہیں۔ اسی طرح ان کے لیے جس جگہ جو اپیوگی ہوگا، وہ اس کا استعمال کریں گے۔ مثال کے طورپر نشاد ریلی میں انہوں نے کیشو پرساد موریہ کا ذکر کیا۔ کیونکہ پسمادہ طبقہ اس بات سے ناراض ہے کہ اونچی ذات کا اثر ہے اور سنجے نشاد گورکھپور سےہی آتے ہیں۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ یوگی جی نے راجپوتوں کی سیاست کی ۔ ایسے میں اس ریلی میں وہ ایک پسماندہ طبقہ کے لیڈر کوترجیح دیں گے ۔ کیونکہ یوگی جی کی تعریف کرنے سے نشاد خوش نہیں ہوں گے۔
اب آپ دیکھیں گے کہ مغربی اتر پردیش میں یوگی جی کا بہت نام لیا جائے گا۔ کیونکہ وہاں لوگوں کا غصہ مودی سے زیادہ، یوگی سے کم ہے۔ کیونکہ مودی جی کسان قانون لائے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مغربی اتر پردیش کے کسان لو جہاد جیسے مسائل پر کارروائی کرنے کا کریڈٹ یوگی کو دیتے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر کیوں مجبور ہونا پڑا؟
اس سوال کے جواب میں سنیتا آرون کہتی ہیں، ’’بی جے پی کی اس حکمت عملی کی وجہ یہ ہے کہ اس الیکشن میں بی جے پی کو اندازہ ہو گیا ہے کہ یوگی اکیلے الیکشن نہیں جیت سکتے۔خالی ان کو آگے کرکے اکھلیش یادو سے الیکشن نہیں لڑا جاسکتا۔ اس لئے مودی جی کی ضرورت ہے ۔
کیا کیشو پرساد موریہ متبادل بن سکتے ہیں؟
حال ہی میں ایک جلسہ عام کے دوران امت شاہ کو کیشو پرساد موریہ کی تعریف کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہی نہیں کیشو پرساد موریہ ایک پروگرام میں نریندر مودی کو کچھ معلومات دیتے نظر آئے۔ اس کے بعد یوپی کے سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ کیا انتخابات کے بعد سیٹیں کم ہونے پر کیشو پرساد موریہ کے نام پر غور کیا جا سکتا ہے۔
سینئر صحافی یوگیش مشرا، جو یوپی کی سیاست کو سمجھتے ہیں، کا ماننا ہے، ’کیشو پرساد موریہ نئی بھارتیہ جنتا پارٹی میں آزمائے گئے لیڈر ہیں کیونکہ وہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ریاستی صدر تھے اور بی جے پی کو اکثریت ملی تھی اور دانستہ یا نادانستہ بھارتیہ جنتا پارٹی انہیں او بی سی لیڈر کے طور پر پیش کرتی رہی ہے، ایسے میں پارٹی ان کی شبیہ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور چونکہ اکثریت ان کی قیادت میں ملی ہے، ایسے میں انہیں لگتا ہے کہ کیشو موریہ کو کنارے نہیں کیا جا سکتا۔
یہی نہیں، کیشو موریہ، ستیش مہانا اور برجیش پاٹھک سمیت کل چار وزیر ہیں، جو پانچ سالوں میں کارکنوں سے لے کر عام لوگوں تک ملتے رہے ہیں۔
ایسے میں چاہے وہ لوگوں کے کام نہ کراپائے ہوں لیکن ان کے ساتھ حکومت محالف لہر نہیں ہے۔ اور او بی سی طبقہ میں یہ رجحان ہے کہ یوگی جی نے کیشو موریہ کو کام نہیں کرنے دیا۔ اس میں ایک ہمدردی بھی ہے۔ اور بی جے پی اس کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
لیکن کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بی جے پی کوئی دروازہ بند نہیں کرنا چاہتی۔
سینئر صحافی راجیش دویدی کا ماننا ہے کہ بی جے پی اپنے آپشن کھلے رکھنا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ بات یہ ہے کہ بی جے پی نہیں چاہتی کہ کم سیٹوں کی صورت میں اس کے پاس یوگی کا آپشن نہ ہو۔کیونکہ اگر اسے حکومت بنانے کے لیے کسی کا سہارا لینا پڑتا ہے تو وہ بی ایس پی یادیگر پارٹی ہو سکتی ہے۔ دیگر پارٹیاں یوگی سے متفق نہیں ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیشو پرساد موریہ کام آ سکتے ہیں۔
بی جے پی مضبوط یا مجبور؟
وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ کی جوڑی کوشش کرتی ہے کہ حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں لیکن ان کے اشاروں میں مجبوری یا بے بسی نہیں دکھائی دیتی ہے۔
لیکن ماہرین کی رائے میں اس الیکشن میں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اکھلیش یادو کے بیانات اور ان کی ریلیوں میں آنے والی بھیڑ پر بحث کرکے ایک مختلف تصویر پیش کر رہی ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ امت شاہ کی تقریروں میں جس طرح کی عجلت نظر آرہی ہے، اس سے اس الیکشن میں بی جے پی کی ’بے بسی اور مجبوری‘ کی نشاندہی ہو رہی ہے۔
اس پر روشنی ڈالتے ہوئے سنیتا آرون کہتی ہیں، ’پہلے اپوزیشن پارٹیاں الیکشن میں نہیں اتر رہی تھیں۔ اس کے بعد اکھلیش جی نے اپنی رتھ یاترا شروع کی جس میں بھیڑ نظر آئی۔‘ تاہم، ہجوم کا مطلب ووٹ نہیں ہے۔ لیکن یہ یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اسے لوگوں نے پسند کیا ہے۔ اور اس وقت لڑائی کی پوزیشن میں ہیں۔ اگر آپ 2017 کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو انہیں بہت طویل سفر طے کرنا پڑے گااور اگر بی جے پی 325 سے گرتی ہے تو کہاں گرے گی، یہ دیکھنا ہوگا۔
لیکن ایک بات نظر آئی، ان لوگوں کی اندرونی رپورٹ بھی رہی ہوں گی کہ اس الیکشن میں پولرائزیشن ہو رہاہے۔ دو حصوں میں تقسیم ہو رہاہے۔ بی جے پی کے لئے یہ کہیں سے ٹھیک نہیں ہے،کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کثیر الجہتی یعنی کئی زاویوں میں تقسیم کیا جائے، تاکہ ان کے خلاف ووٹ تقسیم ہو جائے۔ اس طرح ان کے لیے الیکشن لڑنا آسان ہو جاتا ہے۔
اب جو بھی حکومت دوبارہ الیکشن کے لیے جاتی ہے، اس کے خلاف حکومت مخالف لہر اٹھتی ہے۔ اور یوپی میں 2007 کے بعد کوئی حکومت دوبارہ اقتدار میں نہیں آئی ہےاور بی جے پی کے لیے 2024 کے لحاظ سے یوپی جیتنا بہت ضروری ہے۔ تو ایک قسم کا ڈپریشن ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی ہندی)