ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ونود دوا کے خلاف ملک سے بغاوت کے الزام میں درج مقدمے کے فیصلے کے بعد ایک بار پھر یہ قانون میڈیا و سوشل میڈیا میں موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ ملک سے بغاوت کا قانون کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں ہے؟ کرونا مہاماری کے دوران گزشتہ سال معروف صحافی ونود دوا نے اپنے ایک پروگرام کے دوران ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی حکومت کو اپنی تنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے بہت سے سوالات اٹھائے تھے جن میں کرونا کی وجہ سے اچانک لاک ڈاون کا اعلان نیز مہاجر مزدوروں کے تئیں حکومت کی غیرواضح پالیسی اور اس کے بعد ہونے والے مسائل اہم موضوع تھے، اس ویڈیو پروگرام کے بعد حکمراں سیاسی جماعت کے ایک لیڈر کی شکایت پر ہماچل پردیش میں ونود دوا کے خلاف اینڈین پینل کوڈ کی متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جن میں 124 اے یعنی ملک سے بغاوت کی دفعہ بھی شامل تھی۔
ونود دوا نے اس مقدمے کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، کچھ ماہ پہلے ہی کسانوں کی نئے ذراعتی قوانین کو لے کر ہونے والے احتجاجات کے دوران سماجی کارکن دشاروی کے خلاف بھی اسی دفعہ کا استعمال ہونے پر یہ قانونی دفعہ سوالات کا مرکز بن گئی تھی۔
سیپریم کورٹ آف انڈیا نے ونود دوا کے مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے ملک سے بغاوت کے الزام میں درج ایف آئی آر کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے جسٹس یویو للت اور جسٹس ونیت سارن کی بینچ نے الزامات خارج کردیے نیز صحافیوں کو کیدار ناتھ فیصلے کی روشنی میں تحفظ فراہم کرتے ہوئے ایک بار پھر ملک سے بغاوت کے قانون کے غلط استعمال پر ایک تاریخی فیصلہ سنایا، یہ فیصلہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی تازہ اعداد و شمار کے مطابق 2016 سے 2019 کے درمیان اس قانون کے تحت مقدمات میں 160 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ صرف 3.3 فیصد مقدمات میں ہی جرم ثابت ہوسکا ہے۔ 2019 میں 96 افراد کے خلاف ملک سے بغاوت کے الزام میں مقدمات درج ہوئے جن میں صرف 2 ملزمین کے خلاف جرم ثابت ہوا۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے کیدار ناتھ سنگھ بنام اسٹیٹ آف بہار 1962 کے مقدمہ میں سیڈیشن کے قانون دفعہ 124 اے انڈین پینل کوڈ کی دستوری و قانونی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے اس قانون کے متعلق رہنما اصول پیش کئے تھے جس میں سپریم کورٹ نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرنا یا حکومت وقت کی مخالفت کرنا سیڈیشن نہیں ہوگا، ملک میں قانون کے ذریعے بنائی گئی حکومت اور وہ افراد جو وقتی طور پر انتظامی امور انجام دینے کے لئے متعین ہوں، دونوں میں فرق واضح کیا ہے، یعنی ہر شہری کو یہ حق ہے کہ وہ حکومت یا حکومت کے کام کرنے کے طریقوں کے متعلق اپنی رائے پیش کرے، یہ رائے تنقید یا مخالفت کرنے کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے، حکومت وقت یا حکومت کے ذریعے انتظامی امور کو انجام دینے والے ذمہ دار افراد کی کارگزاریوں یا ان کے کام کرنے کے اسلوب و اقدامات کی تنقید کرنا چاہے وہ تنقید سخت ہی کیوں نہ ہو، تنقید یا اختلاف کو ملک سے بغاوت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص تشدد کرنے کے لئے اکساتا ہے یا امن و امان کے لئے خطرہ پیدا کرتا ہے تو اس صورت میں ہی اس قانون کا استعمال ہوسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کو انگریز حکومت سے آزادی حاصل کرنے کی طویل جدوجہد کے پیچھے سب سے اہم مقصد یہی تھا کہ انگریز حکومت ہمارے ملک میں اپنے مفادات کے پیش نظر پالیسیاں مرتب کرتی تھی اور ان پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی مخالف آوازوں کو قانون و پولیس طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کرتی تھی، ملک سے بغاوت کا قانون یعنی انڈین پینل کوڈ میں دفعہ 124 اے کو شامل کرنے کا مقصد بھی یہی تھا، یہ قانون 1870 میں انڈین پینل کوڈ میں شامل کیا گیا تھا جب انگریز حکومت کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کے لئے وہابی مومنٹ شروع ہوئی تھی، اس سے قبل انگلینڈ میں یہ قانون 1848 میں یوکے ٹریزن فیلونی ایکٹ کے نام سے بنایا گیا تھا۔ 1947 میں ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا لیکن آزاد ہونے کے بعد بھی ان کالے قوانین کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی البتہ انہیں قوانین کے ذریعے ہر اس آواز کو اس قانون کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی جو آواز حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف اٹھی یا جس نے بھی حکومت کی عوام مخالف پالیسی کی مخالفت کری۔ آزادی کے بعد دستور ہند کا نفاذ ہوا اور دستور نے شہریوں کو متعدد بنیادی و شہری حقوق فراہم کئے جن میں آرٹیکل 19 بھی شامل ہے، جس کی روشنی میں ہرشہری کو اظہار رائے کی آزادی فراہم کی گئی، اظہار رائے کا حق ہی ہے جو ہمیں حکومت اور حکومت کی پالیسیوں پر اپنی رائے پیش کرنے کی آزادی دیتا ہے، ایک آزاد جمہوری ملک میں حکومت کا انتخاب عوام کرتی ہے، حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے قانون و اسکیمیں بنائے، اگر عوام کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی منتخب کردہ حکومت کچھ خاص صنعتی گھرانوں کے مفادات کے تحفظ کی غرض سے ایسی پالیسیاں بنارہے ہیں جن سے عام شہریوں کو نقصان ہوگا تو یقینا شہریوں کی یہ دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کے خلاف اپنی بے چینی کا اظہار کریں، البتہ یہ اظہار خیال جمہوری طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ہو، تاہم آرٹیکل 19 کی دوسری ہی شق میں حکومت کو یہ اختیار بھی دےدیا گیا کہ وہ قوانین و ضوابط اور امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کی غرض سے معقول پابندیوں کا نفاذ بھی کرسکتی ہے نیز قوانین کی تدوین بھی کرسکتی ہے۔
1951 میں تارا سنگھ گوپی چند کے مقدمے کہا گیا تھا کہ “ہندوستان اب ایک خودمختار جمہوری ملک ہے، ملک سے بغاوت کا قانون ایک غیرملکی حکومت کے تسلط کے لئے ضروری تھا جب کہ آزادی کے بعد کی تبدیلیوں کے ساتھ اس قانون کو بھی تبدیل ہونا چاہیےاور اس قانون سے چھٹکارا حاصل ہونا چاہیے”۔ 1958 میں رام نندن مقدمے کے فیصلے میں جسٹس گورتو نے کہا تھا کہ “ قانون ساز اسمبلی و انتظامیہ کچھ وزیروں کے قابو میں ہوتی ہے جن کی پالیسیوں پر پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک عام عوام بھی اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کریں گے، اس مخالفت یا اظہار رائے کا مقصد ضروری نہیں کہ امن و قانون میں رکاوٹ ڈالنا ہو یا حکومت کا تختہ پلٹ کرنا ہو، تاہم حکومت ان کی اظہار خیال کی آزادی کو پابند کرنے کے لئے تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے کا ناجائز استعمال کرسکتی ہے جو کہ دستور کے بنیادی حق اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہوگا۔”
آزادی کے بعد سے آج تک اس قانون کا استعمال ہرحکومت اپنے مخالفین اور تنقید کرنے والوں کے خلاف کرتی رہی ہے، ہر سیاسی پارٹی نے اپنے مفادات کے پیش نظر قوانین اور پولیس ایجنسیوں کا غلط استعمال کیاہے۔ ملک سے بغاوت کرنے کا واضح مطلب یہی ہوتا ہے کہ ملک کی خودمختاری یا آزادی کے لئے خطرہ پیدا کرنا، ملک میں ایسے جنگی حالات پیدا کردینا جس سے دستوری حکومت خطرے میں آجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک عوام کی منتخب حکومتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوتی رہی ہیں، جمہوریت میں صحافت کو چوتھا ستون کہا گیا ہے، اگر ہماری عوامی جمہوریت میں صحافی بھی حکومت کی پالیسیوں پر اپنی رائے عوام کے سامنے رکھنے یا حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھانے کی پاداش میں ملک سے بغاوت کرنے کے ملزم قرار دیے جائیں گے تو جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ایک ایسی بادشاہت ہمارے اوپر مسلط ہوجائے گی جو ہمارے لئے انگریز حکومت سے بھی زیادہ خطرناک ہوگی۔