تحریر:راہل مکھرجی
بنگلہ دیش بھارت میں کئی وجوہات سے سرخیوں میں رہتا ہے۔ کبھی اس کا ذکر اس لئے ہوتای ہے کہ اس نے معاشی پیمانوں پر اپنے ترقیافتہ پڑوسی ملک کو پیچھے چھوڑ دیاہے، کبھی سرحد سے متصل ریاستوں کے انتخابی تقریروں میں وہ چھایہ رہتا ہے ۔ ابھی حال ہی میں بنگلہ دیش بریکنگ نیوز تب بنا ،جب وہاں درگا پوجا کے موقع پر ہندوؤں کو نشانہ بنایا گیا۔
یوں تو بنگلہ دیش میں پوجا پنڈالوں پر حملے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہاں ایسے واقعات مسلسل ہوتے رہتے ہیں جو کہ ظاہر سی بات ہے۔ بہت پریشان کرنے والی بات ہے ،لیکن اس سال کچھ الگ ہوا۔ ایسےواقعات صرف کملا شہر میں نہیں ہوئی ،بلکہ اس کی آنچ ملک کےدوسرے حصوں میں بھی پہنچی ۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی زیرقیادت حکومت نے حالیہ تشدد اور مجرموں سے نمٹنے میں تیزی سے کام لیا ہے۔ ہاں، ایک بات الگ تھی کہ ہندوستان میں ان واقعات کو کس طرح لیا گیا۔ اس پر حکومت ہند کا ردعمل کھل کر سامنے نہیں آیا۔
دائیں بازو کی ہندوتوا بریگیڈ نے اپنے غصے اور اشتعال ورچوئل ورلڈ تک سمٹے رکھا۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف حملوں کی ایسی کوئی رپورٹ نہیں آئی جس سے بنگلہ دیش کے واقعہ کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔
19 اکتوبر تک یہی صورتحال تھی۔ پھر اچانک تریپورہ میں تشدد شروع ہو گیا۔ مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ مسلمانوں کی بستیوں ،دکانوں وغیرہ پر حملے کئے گئے ۔
خبریں آہستہ آہستہ آرہی ہیں، لیکن جب تک ملک کو ان واقعات کی مکمل معلومات ملی، یہ حملے شمالی تریپورہ کے بیشتر حصوں میں ہونے لگے۔ ان حملوں کا انداز دیکھ کر لگتا ہے کہ منصوبہ بندی کے بعد ان پر عمل کیا جا رہا ہے۔ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے سے پہلے آئیے اس بیانیے کو سمجھ لیں جو ان دنوں گڑھی جا رہی ہے۔
تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد بالکل نئی بات ہے۔ تریپورہ کے لیے تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ سیاسی وجوہات کی بناء پر بھڑکتے رہے ہیں۔ پہلے یہ لیفٹ بمقابلہ کانگریس تھااور اب یہ بی جے پی بمقابلہ لیفٹ یا ٹی ایم سی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں نسلی وجوہات کی بنا پر تشدد کو ہوا دینا بہت معمولی بات ہے۔
تریپورہ کی سماجی خامیاں بھی ہیں۔ لیکن یہ ذات پات پر مبنی ہے۔ ’آبائی آبادی بمقابلہ بنگالی بولنے والے‘ کا ایک دیرینہ تنازع ہے۔ دہائیوں کی کمیونسٹ حکمرانی اور کانگریس کی حکومت کے چند سالوں کے باوجود یہ جھگڑا جوں کا توں جاری ہے۔
ذات پات کی تفریق کی وجہ سے ریاست کچھ عرصہ پہلے تک پرتشدد انتہا پسند تحریکوں کی زد میں رہی ہے۔ لیکن مذہبی اقلیتوں کے طور پر مسلمان کبھی بھی نفرت انگیز جرائم کا نشانہ نہیں بنے۔ تریپورہ میں لنچنگ کے معاملے اب بھی نئے ہیں۔
مسلمان ریاست کی آبادی کا 10 فیصد سے بھی کم ہیں۔ تریپورہ ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں آزادی کے بعد مسلمانوں کی آبادی میں زبردست کمی دیکھی گئی ہے۔ اس لیے ملک کے مشرقی جانب واقع اس ریاست میں ’’ہندو خطرے میں ہے‘‘ کا بیانیہ زیادہ کام نہیں کرتا۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی)