تحریر: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
پٹنہ ایرپورٹ سے جماعت اسلامی ہند حلقۂ بہار کے دفتر (محلہ پتھر کی مسجد) جاتے ہوئے جب راستے میں میزبان نے ایک عمارت کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری ہے تو دل میں خواہش مچلی کہ اگر کونسلنگ ورک شاپ سے فراغت کے بعد کچھ وقت مل جائے تو لائبریری کی زیارت کرنے کا بہت اچھا موقع ہے _ امیرِ حلقہ بھائی رضوان احمد صاحب سے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا :’’ کل واپسی میں ایرپورٹ کے لیے ذرا پہلے نکل لیں گے تو لائبریری بھی دیکھ لیں گے _‘‘۔
خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری اپنے بانی مولوی خدا بخش خان (م1908) کے نام سے معروف ہے _ انھوں نے 4 ہزار کتابوں سے اس کا آغاز کیا تھا ۔ اِس کتب خانہ میں عربی اور فارسی کے بڑے قیمتی مخطوطات ، نیز راجپوت اور مغل ادوار کی اہم تصاویر موجود ہیں ۔ ان میں تیمورنامہ (خاندانِ تیموریہ) ، شاہ نامہ فردوسی ، پادشاہ نامہ ، جامع التاریخ ، دیوان حافظ اور سفینۃ الاولیاء کے قلمی نسخے شامل ہیں ۔ تیموری مخطوطات پر اکثر مغل شہنشاہوں کے دستخط ہیں _ سلطنتِ مغلیہ کے زمانہ میں بنائی جانے والی تصاویر ، خطاطی اور تزئین و آرائش کی کتب بھی اِس کتب خانہ میں محفوظ ہیں _ قلمی مخطوطات (عربی ، فارسی ، اردو ، ترکی ، پشتو) کی تعداد 21 ہزار سے زائد ہے ، جب کہ طبع شدہ کتب 20 لاکھ سے زائد ہیں ، جن میں انگریزی ، عربی ، اردو ، فارسی ، ہندی ، جرمن ، فرانسیسی ، پنجابی ، روسی اور جاپانی زبانوں کی کتب شامل ہیں ۔ ماہ نامے ، روزنامے اور ہفت وار رسالے بھی کثیر تعداد میں ہیں ۔ اپنے قیمتی ذخیرہ کی وجہ سے لائبریری کو عالمی شہرت حاصل ہے _۔
خدا بخش لائبریری پہنچ کر ہم نے بھائی اصغر اصلاحی سے رابطہ کیا _ موصوف تقریباً ایک دہائی سے یہاں خدمت انجام دے رہے ہیں _ ابھی ایک ماہ قبل ان سے دہلی میں ملاقات ہوئی تھی تو میں نے کہا تھا کہ کبھی پٹنہ آیا تو آپ سے ضرور ملاقات کروں گا _ اصغر صاحب بہت تپاک سے ملے _ انھوں نے ہی ڈائریکٹر لائبریری ڈاکٹر شائستہ خاں کو ہماری آمد کی اطلاع دی اور لائبریری کے نوادرات دکھانے کی خواہش کی _ ڈائریکٹر صاحبہ خدا بخش لائبریری کے سابق ڈائریکٹر اور مشہور شخصیت ڈاکٹر عابد رضا بیدار کی صاحب زادی ہیں _ وہ مجھ سے شناسا تھیں _ انھوں نے جواب دیا : ’’میں خود آتی ہوں ، میں ہی لائبریری کی وزٹ کروادوں گی _۔‘‘
شائستہ صاحبہ مولانا آزاد لائبریری ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں بھی خدمت انجام دے چکی ہیں _ اپریل 2019 سے انھوں نے خدا بخش لائبریری کا چارج سنبھالا ہے _ بھائی رضوان اصلاحی نے کہا :’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کورونا کے ساتھ یہاں تشریف لائی ہیں ۔‘‘ انھوں نے جواب دیا : ’’ اس مدت میں ہم نے اتنا کام کیا ہے جتنا عام حالات میں 25 برس میں ہوتا ہم نے اسٹاک چیکنگ کا کام کیا ہے ، جو لائبریری کے قیام سے لے کر اب تک نہیں ہوپایا تھا _ کتابوں اور سہ ماہی لائبریری جرنل کی اشاعت رکی ہوئی تھی ، ہم نے اسے بھی بحال کیا ہے _۔‘‘
محترمہ نے بہت شوق اور دلچسپی سے ہمیں بہت سے مخطوطات دکھائے _ قرآن مجید کے خطّی نسخے ، عربی اور فارسی کی قدیم کتابیں ، مختلف زمانوں کی پینٹنگس ، مغل حکم رانوں کی تحریریں ، وغیرہ _ انھوں نے ادویۂ مفردہ پر دیسقوریدوس کی کتاب الحشائش اور علم الجراحۃ پر ابو القاسم زہراوی کی کتاب التصریف کے نسخے بھی دکھائے ، جو لائبریری میں محفوظ ہیں _ انھوں نے بتایا کہ لائبریری کا ڈسکرپٹیو کیٹلاگ جو بہت پہلے طبع ہوا تھا ، اسے لائبریری کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا گیا ، اس کے علاوہ لائبریری کی تمام کتابوں کے بارے میں معلومات بھی اس کی سائٹ پر فراہم کردی گئی ہیں _ دنیا میں کہیں سے بھی کوئی شخص ان سے استفادہ کرسکتا ہے بھائی رضوان نے دریافت کیا کہ کوئی شخص لائبریری سے استفادہ کرنے کے لیے کسی دوسرے شہر سے آئے تو اسے یہاں کیا سہولت مل سکتی ہے؟ محترمہ نے جواب دیا ’’ لائبریری کا مہمان خانہ ہے ایسے لوگوں کے لیے اس میں رہائش کی مفت سہولت فراہم کی جاتی ہے _۔‘‘
میرے ساتھ مولانا رضوان اصلاحی کے علاوہ مولانا لطف اللہ قادری فلاحی ( جو مولانا سید احمد عروج قادری کے صاحب زادے ہیں) ، عتیق الرحمٰن اور دفترحلقہ کے منتظم بھائی شوکت علی تھے _ ہمارا تعارف جماعت اسلامی کے ذمے داروں کی حیثیت سے ہوا تو بات جماعت کی سرگرمیوں کی ہونے لگی _ موصوفہ نے کہا :’’جماعت پر غیر سیکولر ہونے کا ٹھپّہ لگا ہوا ہے _ کیا اچھا ہو کہ جماعت کی یہ امیج بدلے ‘‘ میں نے عرض کیا : ’’رفاہی میدان میں جماعت کی سرگرمیاں مذہب و ملّت کی تفریق کے بغیر تمام انسانوں کے لیے ہیں کورونا کے زمانے میں جماعت نے زبردست کام کیا ہے ، جس کا حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی اعتراف کیا گیا ہے _ اس کے علاوہ جماعت ملک میں امن و امان اور بھائی چارہ کی فضا قائم کرنے کے لیے برابر کوشاں رہتی ہے _۔‘‘
ڈائریکٹر لائبریری نے اٹھتے اٹھتے وزیٹر بک آگے بڑھا دی کہ ہم اپنے تاثرات لکھ دیں ، سو اس کی تعمیل ضروری تھی اور فوٹو گرافی تو اب معمول کا حصہ بن گئی ہے ، چنانچہ محترمہ نے باہر آکر لائبریری کے گیٹ پر ہم لوگوں کے ساتھ فوٹو کھینچوائے _ ۔