تحریر: کلیم الحفیظ۔نئی دہلی
حکمت اور مصلحت دونوں لفظوں کا بڑا استحصال کیا گیا ہے۔ان الفاظ پر آزاد بھارت میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ ظلم کیا ہے۔مسلمانوں میں بھی معاف کیجیے ہمارے دینی پیشوااس میں پیش پیش رہے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج مسلم قوم کے بزرگ ہی نہیں جوان بھی مصلحت پرستی کا شکار ہوگئے ہیں۔خوف اور دہشت ہمارے دلوں میں گھر کر گئی ہے۔ملک آزادی کی 75ویں سال گرہ ’امرت مہوتسو‘ منارہا ہے ۔ہم گزشتہ 75سال کے زخموں کو سہلا رہے ہیں۔اسی مصلحت نے ہمارے پرسنل لاء میں سرکاری مداخلت کا دروازہ کھول دیا۔اسی کی وجہ سے ہماری مسجدوں پر تالے ڈالے جاتے رہے ،یہاں تک کہ درجنوں مسجدیں مسمار کردی گئیں،یہی حکمت ہمیں عصری تعلیم سے دور کرتی رہی، اسی کے باعث ہم سیاسی اتحاد سے محروم رہے،اب یہی حکمت ہمارے وجود کو مٹانے کے درپے ہے۔ہم اپنی کمزوری کو مصلحت اور بزدلی کو حکمت کے خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا کر اطمینان کی سانس لے رہے ہیں۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام ہی اس لیے ہواتھا کہ 1937کے مسلم پرسنل لاء ایکٹ کو بدستور نافذ کیا جائے، اسلام کے عائلی مسائل سے ملت کو آگاہ کیا جائے،ان کو شریعت کے احکامات سے روشناس کیا جائے اور حکومت کو اس بات کا موقع نہ دیا جائے کہ وہ اس میں مداخلت کرے ۔پچاس سال گزرجانے کے باوجود ادارے کے ذمہ داران یہ نہیں کہہ سکتے کہ بھارت کے مسلمان اسلام کے عائلی احکامات سے واقف ہوچکے ہیں۔ایک بڑے ادارے کے لیے نصف صدی کا وقت کچھ کم نہیں ہوتا جس کا ہر فرد خود ایک ادارہ ہے اگر وہ اقدامات کرتا تو یقینا مسلمان ہی نہیں غیرمسلم بھی اسلام کے خاندانی نظام سے واقف ہوسکتے تھے۔پورے پچاس سال گزر گئے شاہ بانو کیس کو چھوڑ دیجیے تو کوئی قابل قدر کارنامہ بورڈ کی ڈائری میں نہیں ہے۔اس کی وجہ شاید یہ مصلحت رہی ہو کہ مسلمانوں کے درمیان فقہی اختلافات ابھر کر سامنے آئیں گے،جیسا کہ طلاق ثلاثہ کے موقع پر ہوا بھی۔یا کبھی کسی منصوبہ کو یہ کہہ کر بالائے طاق رکھ دیا گیا ہو کہ ابھی مناسب وقت نہیں۔
یہی کچھ صورت حال ہماری مساجد کی رہی ۔مساجد کا ریکارڈ نہیں رکھا گیا ۔وقف میں اندراج تک کو برائے مصلحت ناپسند کیا گیا۔مسلکی اختلافات کے سبب ایک دوسرے کی مسجدوں کی تعمیر روکتے اور رکواتے رہے،پولس اور عدالتوں میں مقدمات لے جاتے رہے،آخر کار وہ دن دیکھنے کو ملا کہ جب وہ مسجد گرادی گئی جس کی بازیابی کے لیے مسلم عوام نے اپنے رہنمائوں پر اعتماد کیا ۔بابری مسجد کے تحفظ کے لیے جو قانونی کوششیں کی گئیں ان کو یقیناًسرا ہا جانا چاہئے ۔لیکن سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سنوائی کے دوران جب ہم یہ جانتے تھے کہ فریق مخالف کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا،اس کے دلائل بودے اور کمزور ہیں تو آئین ہند کی کس شق اور شریعت کے کس حکم کے تحت یہ حلف نامہ دیا گیا کہ جو بھی فیصلہ ہوگا تسلیم کرلیا جائے گا،آخر یہ کہنے میں کیا بے حکمتی تھی کہ فیصلہ عدل کے مطابق ہوگا تو مان لیاجائے گا ورنہ نہیں مانا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اندیشہ تھا کہ اگر ہم عدم تسلیم کی بات کریں گے تو خون خرابہ ہوسکتا ہے ،فساد پھوٹ سکتا ہے ،شایدہمارے بزرگوں نے اسی حکمت اور مصلحت کے تحت اسی میں عافیت سمجھی کہ پورے ملک کو یہ یقین دلایا جائے کہ عدالت کا فیصلہ تسلیم کرلیا جائے گا۔لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ عدالت میں آستھا کو ثبوت کا درجہ مل گیا،مخالفین کو حوصلہ مل گیا کہ اب وہ کاشی اور متھرا میں جمع ہوں۔اگر ہمت اور حوصلہ سے کام لے کر یہ موقف اختیار کیا جاتا کہ عدل پر مبنی ہی فیصلہ تسلیم کیا جائے گا توآپ کے نوجوانوں میں جوش اور حوصلہ کو غذا حاصل ہوتی اور عدالت فیصلہ کرنے سے قاصر رہتی۔
ہمارا پورا تعلیمی نظام مصلحت پسندی کا شکار ہوگیا ۔سرکاری اداروں میں اس لیے نہیں گئے کہ وہاں دہریت اور کفر تھا،مدارس میں عصری مضامین کو اس لیے داخل نہیں ہونے دیا کہ یہ کفرہمارے دین کو بگاڑ دے گا،ہمارے ایک بزرگ رہنما نے یہ فرمان جاری کیا کہ ہم جاہل رہ سکتے ہیں لیکن وندے ماترم نہیں کہیں گے ،ان کے ایمانی جذبے کو سلام کیجیے ،کاش وہ اس کے بجائے جہالت دورکرنے کا متبادل نظام فراہم کردیتے تو شاید یہ کہنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔آزادی کے بعد کم و بیش پچاس سال تک ہمارے دینی ادارے اہل ملک کی زبان سے دور رہے ،اس ناعاقبت اندیشی نے ہمیںاچھے وکیلوںاور ماہر ڈاکٹروں سے محروم رکھا۔لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم اورانتظامی شعبے میں سروس کا تو خیال تک ایمان کے منافی تھا۔نہ جانے یہ کونسی حکمت تھی کہ اپنی نسلوں کو ہندی ،انگریزی سے محروم رکھا گیا۔اس کا یہ نقصان بھی ہوا کہ ہمارے درمیان ایسے اسکالروں کا فقدان رہا جو برادران وطن کی زبان میں دینی امور کی تفہیم کراتے۔یہ نقصان بھی ہوا کہ دین میں نکتہ چیںمسلمانوں کا گروہ پیدا ہوگیا۔
سب سے زیادہ حکمت اور مصلحت سیاسی شعبے میں دکھائی گئی۔تعلیمی میدان میں تو کچھ اصلاحات ہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں ،مدارس کے طلبہ بھی عصری مضامین کی تعلیم حاصل کررہے ہیں،لیکن سیاست میں ابھی تک ہم خواہ مخواہ کے اندیشوں کے شکار ہیں ،اور جن اندیشوں سے بچنے کے لیے ہم نے مصلحت کا دامن پکڑا تھا وہ اندیشے مجسم شکل میں موجود ہیں ۔ایمر جنسی تک کانگریس کو مسلم جماعت کا درجہ حاصل رہا۔اس لیے کوئی دوسری جماعت کیسے بن جاتی ،اس کے بعداپنی سیاسی جماعت بنانے کا خیال جب بھی کسی کے دل میں آیا ،حکمت کے ٹھیکیداروں اور مصلحت کے سوداگروں نے کہا کہ اس سے ملت کو نقصان ہوگا۔ہندو اکثریت متحد ہوجائے گی۔ہندو اور مسلمانوں میں خلیج بڑھ جائے گی۔کسی نے کہا کہ یہ لیڈر خود بی جے پی کا ایجنٹ ہے،انھیں ناگپور سے فنڈنگ ہوتی ہے۔بابری مسجد انہدام کے بعد پوری ملت بی جے پی ہرائو کے ایجنڈے کے ساتھ میدان میں اتر گئی،دشمن کو ہرانے کی دھن میں دوستوں کو پرکھنا بھی بھول گئی،آخر سیکولر سیاسی جماعتوں کا یہ ذہن بن گیاکہ’ ’مسلمان کام وام پر ووٹ نہیں دیتے وہ صرف بی جے پی کو ہرانے کے لیے ووٹ دیتے ہیں ‘‘۔مصلحت کی چادر نے ہمیں یہ دیکھنے سے بھی محروم کردیا کہ برادران وطن کی دو فیصد آبادی والوں تک نے اپنی سیاسی جماعت بنا لی ،اور ہم دوسروں کی غلامی کررہے ہیں ،مجھے بتائیے کہ ساری دنیا اپنی فتح کے خواب دیکھتی ہے اور اس کے لیے منصوبہ سازی کرتی ہے اور ہم کسی کی شکست دیکھ کر مطمئن ہیں۔کیا اب بھی ہمارے دانشور بیدار نہیں ہوں گے ،اب تو مسجدوں تک کوزعفرانی رنگ دیا جا رہا ہے۔کیا ابھی بھی آپ سیکولر پارٹیوں سے خیر کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔
ہم مصلحت کا اس قدر شکار ہیں کہ اپنے باہمت رہنمائوں کی حوصلہ شکنی کرنے لگتے ہیں۔کسان بل کی واپسی پر ایک رہنما نے این آرسی اور سی اے اے کا ایشواٹھایا تو کئی لوگ کہنے لگے ’’ بات تو ٹھیک ہے مگر وقت مناسب نہیں‘‘۔میں حکمت اور مصلحت کا منکر نہیں ہوں لیکن یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کونسی بات مصلحت اور حکمت کے مطابق ہے اور کونسی خلاف ہے۔ماضی کے فیصلوں کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہوسکتا ہے کہ ان فیصلوں کے نتائج کیا رہے اگر مثبت نتائج نکلے تو وہ فیصلہ حکیمانہ تھا اورمنفی رذلٹ کی صورت میں فیصلہ غیر حکیمانہ تھا۔اب آپ آزادی کے بعد سے اب تک ان بڑے فیصلوں پر نظر ڈال لیجیے جو ہمارے قائدین اور مؤقر اداروں نے مصلحت اور حکمت کے نام پر لیے اور ان کے نتائج دیکھ لیجیے۔آپ حکمت سے کام ضرور لیجیے لیکن اپنی کمزوری اور بزدلی کو حکمت کا نام مت دیجیے۔
اپنی کمزوری چھپالی مصلحت کی آڑ میں
بزدلی کو ہم نے پہنایا ہے حکمت کا لباس
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)