شاہی جامع مسجد سنبھل کی گونج پوتے ملک میں سنائی دے رہی ہے اور ہندوتووادیوں کے ٹارگٹ پر آگئی ہے ـ یہ پہلی بار ہے کہ معاملہ عدالت تک گیا اور اس کی تیزی دیکھیے کہ اسی دن سماعت ہوئی اور سروے کا آردر بھی ،سروے بھی ہوگیا اس میں کیا نکلا اس بارے میں مسجد انتظامی کمیٹی کے صدر ظفر علی نے نیوز 18 انڈیا کو بتایا کہ منگل کو کیے گئے سروے میں مسجد کے اندر ہندو مندر کی کوئی علامت نہیں ملی۔مسجد انتظامی کمیٹی کے صدر نے کہا کہ مندر کو گرا کر مسجد بنائی گئی، یہ محض افواہ ہے۔ صدر نے سال 1529 میں مسجد کی تعمیر کا دعویٰ کیا اور کہا کہ سروے میں مندر کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ مسجد کے صدر نے الزام لگایا کہ پولنگ کے دوران انتخابات کو پولرائز کرنے کے مقصد سے جلد بازی میں سروے کرایا گیا۔ اس معاملے کی اگلی سماعت 29 نومبر کو ہوگی، جس میں مسلم فریق اپنا جواب داخل کرے گا۔یہاں سروے کے بعد مسجد کی سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ کئی تھانوں کی پولیس کے ساتھ پی اے سی اور آر آر ایف کو تعینات کیا گیا ہے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر مسجد کو جانے والے دو راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ پولیس انتظامیہ کے اہلکار بھی پورے معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ مسجد کی تاریخ کیا ہے؟:مسجد بابر کے حکم پر 1529 میں تعمیر کی گئی-میر بیگ نے بابر کے حکم پر مسجد بنوائی تھی۔- یہ عمارت سنبھل کی قدیم ترین یادگاروں میں سے ایک ہے۔- جامع مسجد بابری مسجد کے نام سے بھی مشہور ہے۔جبکہ – ہندو فریق کے دعوے کے مطابق، مندر کو گرا کر مسجد کی تعمیرہوئی ۔
– ہندو فریق نے اس بارے میں عدالت میں عرضی دائر کی تھی
–