نوٹ: سیڈیشن لفظ کی گونج گزشتہ کچھ سالوں سے زیادہ سنائی دے رہی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے معمولی معاملات میں بھی سیڈیشن کا چارج لگا نے میں عار نہیں سمجھتے ،مولانا آزاد پر بھی برٹش سرکار نے یہ الزام لگایا جس کا جواب ایک دستاویز اور تھیسیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ نئی نسل کو اس سے واقفیت ضروری ہے، یہ تفصیلی بیان قول فیصل نامی کتاب میں موجود ہے، ان کی سالگرہ کی مناسبت سے خراج عقیدت کے طور استفادے کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔( ادارہ)
استغاثہ کی جانب سے میری دو تقریریں ثبوت میں پیش کی گئی ہیں جو میں نے پہلی اور پندرھویں جولائی کو مرزا پور پارک کے جلسے میں کی تھیں۔ اس زمانہ میں گورنمنٹ بنگال نے گرفتاریوں کی طرف پہلا قدم اٹھایا تھا اور چار مبلغین خلافت پر مقدمہ چلا کر سزائیں دلائی تھیں۔ میں اس وقت سفر سے بیمار واپس آیا تھا، میں نے دیکھا کہ لوگوں میں بے حد جوش پھیلا ہوا ہے اور ہر طرح کے مظاہرے کے لیے لوگ بےقرار ہیں، چونکہ میرے خیال میں گرفتاریوں پر مظاہرہ کرنا نان کوآپریشن کے اصول کے خلاف تھا، اس لیے میں نے ہڑتال اور جلوس یک قلم روک دیے۔ اس پر عوام کو شکایت ہوئی تو میں نے یہ جلسے منعقد کئے اور لوگوں کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہوئے سمجھایا کہ نان وایلنس، نان کوآپریشن کے اصول میں یہ بات داخل ہے کہ گرفتاریوں پر صبر و سکون کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے۔ اگر فی الواقع ان گرفتاریوں کا تمہارے دل میں درد ہے تو چاہیے کہ اصلی کام کرو اور بیرونی کپڑا تا کر دیسی گاڑھا پہن لو۔
استغاثہ نے جو نقل پیش کی ہے، وہ نہایت ناقص، غلط اور مسخ شدہ صورت ہے اور محض بے جوڑ اور بعض مقامات پر بے معنی جملوں کا مجموعہ ہے جیسا کہ اس کے پڑھنے سے ہر شخص سمجھ لے سکتا ہے۔ تاہم میں اس کے غلط اور بے ربط جملوں کو چھوڑ کر (کیونکہ اس کے اعتراف سے میرا ادبی ذوق اِبا کرتا ہے ) باقی وہ تمام حصہ تسلیم کر لیتا ہوں جس میں گورنمنٹ کی نسبت خیالات کا اظہار ہے، یا پبلک سے گورنمنٹ کے خلاف جد و جہد کی اپیل کی گئی ہے۔استغاثہ کی جانب سے صرف تقریریں پیش کر دی گئی ہیں، یہ نہیں بتلایا ہے کہ ان کے کن جملوں کو وہ ثبوت میں پیش کرنا چاہتا ہے ؟ یا اس کے خیال میں ‘مائی ڈیئر برادران’سے لےکر آخر تک سب 124-الف ہے ؟ میں نے بھی دریافت نہیں کیا کیونکہ دونوں صورتیں میرے لیے یکساں ہیں، تاہم ان نقول کو دیکھتا ہوں تو استغاثہ کے خیال کے مطابق زیادہ سے زیادہ قابلِ ذکر جملے حسبِ ذیل ہیں؛
’ایسی گورنمنٹ ظالم ہے جو گورنمنٹ نا انصافی کے ساتھ قائم ہو۔ ایسی گورنمنٹ کو یا تو انصاف کے آگے جھکنا چاہیے یا دنیا سے مٹا دینا چاہیے۔ ‘‘اگر فی الحقیقت تمہارے دلوں میں اپنے گرفتار بھائیوں کا درد ہے تو تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ آج سوچ لے۔ کیا وہ اس بات کے لیے راضی ہے کہ جس جابرانہ قوت نے انہیں گرفتار کیا ہے وہ اس براعظم میں اسی طرح قائم رہے جس طرح ان کی گرفتاری کے وقت تھی؟’‘اگر تم ملک کو آزاد کرانا چاہتے ہو تو اس کا راستہ یہ ہے کہ جن چالاک دشمنوں کے پاس خونریزی کا بے شمار سامان موجود ہے، انہیں رائی کے برابر بھی اس کے استعمال کا موقع نہ دو اور کامل امن و برداشت کے ساتھ کام کرو…’‘بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب تقریروں میں کوئی ایسی بات کہی جاتی ہے تو اس سے مقرر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنے بچاؤ کا سامان کر لے ورنہ اس کی دلی خواہش یہ نہیں ہوتی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ آج تمہارے لیے کام کر رہے ہیں، تم میں سے کوئی آدمی بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہو گا کہ وہ جیل جانے یا نظر بند ہونے سے ڈرتے ہیں۔ (پس)اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ امن و نظم کے ساتھ کام کرنا چاہیےتو ان کا مطلب یہ نہیں (ہو سکتا) کہ اس ظالمانہ گورنمنٹ (کے ساتھ) وفاداری کرنی چاہتے ہیں۔ جو گورنمنٹ، اس کی طاقت اور (اس کا) تخت آج دنیا میں سب سے بڑا گناہ ہے، یقیناً وہ اس گورنمنٹ کے وفادار نہیں ہو سکتے۔’