امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی انخلاء کے بارے میں ایک بار کہا تھا کہ یہ "ہمارے ملک کی تاریخ کا سب سے شرمناک لمحہ” ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا 2021 میں ٹرمپ کے جانشین اور حریف جو بائیڈن کی زیر قیادت انتظامیہ کے دوران مکمل ہوا تھاوائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد سے ٹرمپ کا اس بات پر اصرار رہا ہے کہ اگر وہ صدر ہوتے تو طالبان اور امریکی انخلاء سے مختلف انداز میں نمٹتے۔ تاہم ٹرمپ کے بہت سے ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ ان کے دور میں دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان جو معاہدہ ہوا، اسی نے اصل میں طالبان کو دوبارہ اقتدار میں واپس لانے کی راہ ہموار کی۔ یہ معاہدہ سن 2020 میں ٹرمپ کی پہلی مدت کے اختتام کے قریب ہوا تھا۔
اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے فوراً بعد ٹرمپ نے کہا تھا کہ 85 بلین ڈالر میں سے "ہر ایک پیسہ” امریکہ کو واپس کیا جانا چاہیے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے، تو "ہمیں یا تو غیر واضح فوجی طاقت کے ساتھ وہاں جانا چاہیے۔۔۔۔ اور اسے حاصل کرنا چاہیے، یا کم از کم اس پر اتنی بمباری کی جانی چاہیے کہ اسے جہنم بنا دیا جائے۔”
*طالبان کی امید
طالبان نے ٹرمپ کی سیاسی واپسی پر محتاط امید کے ساتھ رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ "دوطرفہ تعلقات میں ٹھوس پیش رفت کو یقینی بنانے کے لیے ایک عملی نقطہ نظر اپنائیں گے، جس سے دونوں ممالک باہمی مصروفیت کی بنیاد پر تعلقات کا ایک نیا باب کھول سکیں گے۔”
*کیا ٹرمپ کے دور میں طالبان سے متعلق موقف تبدیل ہو گا؟
ٹرمپ نے مارکو روبیو کو امریکی وزیر خارجہ اور مائیکل والٹز کو قومی سلامتی کا مشیر بنایا ہے۔ یہ دونوں سیاستدان گزشتہ تین برسوں سے طالبان پر تنقید کرنے کے ساتھ ہی اسلامی بنیاد پرست گروپ پر مزید دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ٹرمپ نے خود بھی طالبان پر تنقید کی اور عندیہ دیا ہے کہ وہ طاقت سے ان سے نمٹیں گے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ان کی مجموعی خارجہ پالیسی پر منحصر ہو گا۔سابق افغان سفارت کار عمر صمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ٹرمپ کی انتظامیہ دوحہ ڈیل پر مذاکرات دوبارہ شروع کر سکتی ہے، یا ان کی ٹیم مکمل طور پر نئے معاہدے پر کام شروع کر سکتی ہے۔”
*افغانستان ٹرمپ کی ترجیح نہیں
دوسرے ماہرین اور سن 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے سے پہلے ان کے ساتھ مذاکرات میں شامل لوگوں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن افغانستان کو زیادہ دیر تک نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتاطالبان کے ساتھ سابق افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن محمد ناطقی کا خیال ہے کہ افغانستان کی صورتحال علاقائی سلامتی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ لہذا، نئی امریکی انتظامیہ کو عمل کرنا پڑے تاہم بعض ماہرین نے اس بات کے لیے بھی خبردار کیا ہے کہ افغانستان ٹرمپ کی ترجیح نہیں ہے۔ (ڈی ڈبلیو)