صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل شام میں ’عسکری اہداف‘ پر اب تک سینکڑوں حملے کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے اسرائیل اور شام کے درمیان واقع گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی قائم غیر فوجی زون یا بفرزون پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ شام میں جاری اس کی فوجی کارروائیوں کا مقصد اسرائیلی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے تاہم کچھ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل اپنے ایک دیرینہ دشمن (شام) کو کمزور کرنے کے لیے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
منگل کے روز اسرائیل کی جانب سے شام کے بحری بیڑے پر بھی ایک بڑے حملے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اُس کے جنگی طیاروں نے پیر کی رات البیضا اور اللاذقيہ کی بندرگاہوں کو نشانہ بنایا جہاں شامی بحریہ کے 15 بحری جہاز لنگر انداز تھے۔تو ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل شام پر مسلسل حملے کیوں کر رہا ہے
شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم ’سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ (ایس او ایچ آر) کی جانب سے کہا گیا تھا کے اتوار کے روز باغیوں کی جانب سے دمشق کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے اسرائیلی فوج نے شام پر 310 فضائی حملے کیے ہیںدوسری جانب اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کے حملوں کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ شام میں موجود کیمیائی ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگیں
••اسرائیل گولان کی پہاڑیوں میں کیا کر رہا ہے؟
روز قبل اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ اُن کی فوج نے گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی قائم غیر فوجی زون یا بفر زون کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
نتن یاہو کے مطابق یہ پوزیشن عارضی ہے اور اس وقت تک ہے ’جب تک کہ کوئی متبادل انتظام نہیں مل جاتا۔‘
اسرائیلی فوج کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں میں قائم غیر فوجی زون پر قبضے کی سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔ سوموار کے روز مصر کی وزارتِ خارجہ نے اسرائیل کے اس اقدام کو ’شام کی سرزمین پر قبضہ اور 1974 کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔
شام سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج غیر فوجی زون سے کہیں آگے نکل چکی ہے اور دمشق سے محض 25 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ اسرائیلی فوج کے ذرائع اس کی تردید کر رہے ہیں۔
تاہم پہلی دفعہ اسرائیلی فوج نے اس بات کو تسلیم کیا ہے اس کی فورسز گولان کی پہاڑیوں کے بفر زون سے کچھ آگے پہنچ چکی ہیں۔ لیکن فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج بہت زیادہ آگے نہیں بڑھی
••گولان ہائٹس کیا ہے کس کا کنٹرول ہے؟
گولان کی پہاڑیاں شام کا وہ علاقے ہے جس پر اسرائیل نے سنہ 1967 سے قبضہ کر رکھا ہے۔گولان کی پہاڑیاں 1200 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ شامی دارالحکومت دمشق سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں۔
سنہ 1967 کی جنگ کے دوران شام نے گولان کی پہاڑیوں سے اسرائیل پر حملہ کیا تاہم اسرائیل یہ حملہ پسپا کرنے میں کامیاب رہا اور اس حملے کے ردعمل میں اسرائیل نے 1200 کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔سنہ 1973 کی جنگ کے دوران شام نے اِن پہاڑیوں کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔بعد ازاں 1974 میں شام اور اسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے اور تب سے اقوامِ متحدہ کی نگران فوج وہاں تعینات ہے۔۔
پروفیسر اچکار کو ڈر ہے کہ لیبیا کی طرح شام بھی مختلف متحارب دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گا اور کوئی ایسا دھڑا برسرِاقتدار نہ آ جائے جو اسرائیل سے دشمنی رکھتا ہو۔‘اُن کے مطابق ایسے کسی دھڑے کو شامی فوج کے ہتھیاروں کو اپنے خلاف استعمال کرنے سے روکنا چاہتے( بشکریہ بی بی سی)