کیرانہ:(ایجنسی)
اتر پردیش کی’ ‘سیاسی جنگ ‘ میں پہلا قدم بڑھایاجاچکا ہے۔ مغربی یوپی کی 58 سیٹوں پر عوام نے اپنا چال چل دیا، ووٹنگ ہوچکی ہے۔ ووٹنگ کے اعداد و شمار بھی سامنے آگئے ہیں۔
جہاں 2017 کے اسمبلی انتخابات میں ان 58 سیٹوں پر 63.5 فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے، وہیں اس بار یہ گھٹ کر 60.17 فیصد پر پہنچ گی، لیکن اتر پردیش کے سیاسی ’کروکشیتر‘ کیرانہ میں اس کے برعکس دیکھنے کو ملا۔ پہلے مرحلے کے انتخاب میںکیرانہ میں سب سے زیادہ 75.12فیصد ووٹنگ ہوئی۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ جس کیرانہ میں پولرائزیشن، ہندوؤں کا پلاین، جرائم، سماج وادی پارٹی کے امیدوار کو جیل بھیجنا، نقل مکانی کا مسئلہ اٹھانے والے بی جے پی کے آنجہانی لیڈر حکم سنگھ کی بیٹی مرگنکا سنگھ کو دوبارہ ٹکٹ دینا، امت شاہ اور یوگیکی انتخابی مہم سرخیوں میں تھی،وہیں ووٹروں کا اتنی تعداد میں گھر سے نکلنا کیا اشارہ دیتاہے ؟ اس کا کیامطلب ہے؟
کیرانہ کے ووٹرز کے من میں کیا ہے؟
کیرانہ کے ووٹنگ پیٹرن کو سمجھنے کے لیے پہلے تھوڑی تاریخ کو سمجھنا ہوگا۔ کیرانہ میں کہا جاتا ہے کہ دو پریوار کی لڑائی ہے۔ ایک منور حسن کا پریوار اور دوسرا بی جے پی کے آنجہانی لیڈر حکم سنگھ کا پریوار ہے۔
کیرانہ اسمبلی سیٹ سے سماج وادی پارٹی نے اپنے موجودہ ایم ایل اے اور منور حسن کے بیٹے ناہید حسن پر دوبارہ اعتماد کرتے ہوئے ٹکٹ دیا ، لیکن الیکشن سے عین قبل پولیس نے ناہید حسن کو انتہائی ڈرامائی انداز میں گرفتار کر لیا۔ ناہید گینگسٹر ایکٹ کیس میں مطلوب تھے۔ بتا دیں کہ ناہید حسن سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر کیرانہ اسمبلی سیٹ سے لگاتار دو بار الیکشن جیت چکے ہیں، لیکن تنازعات سے ان کا پرانا تعلق بتایا جاتا ہے۔ سال 2020 میں انہیں جیل میں بھی رہنا پڑا تھا۔
دوسری جانب کیرانہ میں ہندوؤں کے نقل مکانی کا مسئلہ اٹھانے والے حکم سنگھ کی بیٹی کو بی جے پی نے دوبارہ انتخاب کے لیے میدان میں اتارا ہے۔
ووٹنگ کا کھیل
اب آتے ہیں ووٹنگ فیصد کی طرف۔سال 2012 کے اسمبلی انتخابات میں کیرانہ میں 66 فیصد ووٹنگ ریکارڈ کی گئی تھی، جس میں بی جے پی کے حکم سنگھ نے الیکشن جیتا تھا۔ حکم سنگھ کو تقریباً 45 فیصد ووٹ ملےتھے، لیکن پھر سال 2014 میں بی جے پی نے حکم سنگھ کو لوک سبھا کا امیدوار بنایا اور وہ الیکشن جیت گئے۔ حکم سنگھ کے لوک سبھا میں جانے کے بعد اسمبلی سیٹ خالی ہوئی، جس پر ضمنی انتخابات ہوئے اور ناہید حسین یہاں سے ایم ایل اے بن گئے۔ اس کے بعد 2017 کے الیکشن میں بھی حسن بمقابلہ سنگھ خاندان ہوا۔ ناہید حسن دوبارہ جیت گئے۔ ناہید حسن کو تقریباً 47 فیصد ووٹ ملے جبکہ مرگنکا سنگھ کو 37 فیصد ووٹ ملے۔
اگر ہم کل ووٹوں کی بات کریں تو کیرانہ میں 2012 کے مقابلے 2017 میں ووٹنگ کا تناسب تین فیصد بڑھ گیا تھا۔ 2017 میں کیرانہ میں کل 69 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی۔ اور اب 2022 کے انتخابات میں یہ ووٹنگ فیصد بڑھ کر 75.12 فیصد ہو گئی ہے۔
اب اس 75.12فیصد ووٹنگ کے دو معنی نکلتے ہیں
ناہید حسن کو پہلے جیل میں ڈالنے کی وجہ سے ووٹر کی جذباتی حمایت حاصل ہوئی۔ ناہید حسن کی بہن نے پورے الیکشن میں مہم چلائی۔
دوسرا، کیرانہ نقل مکانی کے مسائل پر پولرائزیشن ہوا، بی جے پی پلاین کے مسئلے کو ہوا دینے میں کامیاب رہی اور ووٹر بڑی تعداد میں باہر آئے۔
اگر آپ کیرانہ میں ذات پات اور مذہب کو دیکھیں تو وہ بھی بہت کچھ کہتا ہے۔ کیرانہ اسمبلی میں ووٹروں کی کل تعداد دو لاکھ ستر ہزار ہے۔ جس میں تقریباً 1,37,000 مسلم ووٹر ہیں۔ ساتھ ہی تقریباً 25,000 جاٹ ووٹر ہیں۔ ایسے میں یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کسان تحریک کی وجہ سےجاٹاورمسلم ووٹر نے بڑی تعداد میں دے کراپنی ناراضگی ظاہر کی ہے ۔