تجزیہ:جاوید نقوی
بنیامن نیتن یاہو کے کامیاب ترین دورہ واشنگٹن کے بعد نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے والے دائیں بازو کے دوسرے اہم عالمی رہنما ہوں گے۔ رپورٹس کے مطابق یہ ملاقات رواں ہفتے کسی بھی دن متوقع ہے۔امریکی صدر سے ملاقات کرکے لوٹتے ہوئے نیتن یاہو بہت سے کھوکھلے وعدے اپنے ساتھ لے کر گئے۔ ٹرمپ نے یہ کہہ کر مہمان کو خوش کیا کہ امریکا غزہ کو اپنی ملکیت میں لے گا اور فلسطینیوں کو ہمسایہ ممالک میں بھیج دے گا۔غزہ آفر (جو دھمکی زیادہ لگ رہی ہے) کو عالمی سطح پر بالکل بھی حمایت نہیں ملی۔ تاہم یہ اس وقت بدل سکتا ہے جب مودی جو نیتن یاہو کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے ہیں، فلسطینی زمین کے لیے طویل عرصے بعد اٹھنے والی عالمی آوازوں سے ہٹ کر ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کردیں۔کو وہ ایک ریئل اسٹیٹ پراپرٹی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ غزہ کو ساحل کنارے ایک پُرکشش سیاحتی شہر میں تبدیل کرنے کا ان کا خواب خطے کے حالات کو مزید بگاڑے گا جوکہ پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے۔سوال یہ ہے کہ جب سب سے محفوظ ملک میں واقع ٹوین ٹاورز کو تباہ کیا جاسکتا ہے تو فلسطینیوں سے چرائی ہوئی زمین پر تعمیر کی جانے والی کوئی بھی عمارت (حماس کے زیرِ زمین بنکرز کے علاوہ) اس وقت تک محفوظ نہیں جب تک فلسطینیوں کو ان کی زمین اور انصاف نہیں دیا جاتا۔
مودی کو دورہ واشنگٹن سے قبل ایک اہم حل طلب چیلنج درپیش ہے۔ وہ ایک ایسے مہرے کے طور پر جانے جاتے ہیں جو بھارت اور مغرب کے درمیان تعلق قائم کرتا ہے بالخصوص چین کے خلاف مغرب کے کام آتے ہیں۔ درحقیقت فروری 2019ء میں آخری دورہ بھارت کے دوران ٹرمپ نے بھارت کو بہت سے فوجی ہتھیار خریدنے پر آمادہ کیا تھا جن میں آبدوز کو ٹریک کرنے کے ہتھیار شامل تھے جسے چین نے اشتعال انگیز اقدام کے طور پر دیکھا۔
اپنے طور پر مودی شاید امریکی نژاد سکھ رہنما کے قتل کی سازش میں انٹیلی جنس اہلکاروں کے خلاف فوجداری مقدمات ختم کرنے کی امید کر رہے ہیں۔ وہ شاید یہ بھی چاہیں کہ بھارتی ٹائیکون گوتم اڈانی پر سے کرپشن کے الزامات ہٹا لیے جائیں۔
ایک حفاظتی اسٹریٹجک اقدام کے طور پر منی پور کے وزیراعلیٰ جن پر گزشتہ دو سالوں سے مسیحی قبائلیوں کے مبینہ قتل کا الزام عائد کیا جارہا تھا، مودی کے دورے سے قبل وہ مستعفی ہوچکے ہیں۔ اس استعفیٰ کا مقصد امریکا کے بائبل بیلٹ سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ کے حامیوں کو مطمئن کرنا ہوسکتا ہے جو سخت مذہبی خیالات رکھتے ہیں۔
مودی کے مقابلے میں ٹرمپ نے براہ راست حکمت عملی اپنائی۔ دوسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی کے ساتھ اپنی پہلی ٹیلی فونک کال پر انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ امریکا کے تیار کردہ مزید ہتھیار خریدے۔ وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’صدر نے بھارت پر امریکی سیکیورٹی مصنوعات کی خریداری میں اضافہ کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان بہتر تجارتی تعلقات کی طرف بڑھنے کی اہمیت پر زور دیا‘۔آخر میں امریکا کے لیے ایک بڑا مسئلہ برکس کے رہنما کے طور پر بھارت کا کردار ہے جسے ٹرمپ متاثر کرنے کی کوشش کریں گے۔ ٹرمپ کی جانب سے مسلسل دباؤ کی وجہ سے پاناما حال ہی میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو سے دستبردار ہوا ہے۔ایسے میں بھارت کس پوزیشن میں ہے بالخصوص اس تناظر میں کہ جب رواں سال کے آغاز میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے نریندر مودی کے دورہ بھارت کی دعوت کو قبول کیا ہے؟ چینی سوچ رہے ہوں گے موجودہ صورتحال کتنی پیچیدہ اور کشیدہ ہوچکی ہے۔ (طویل مضمون کا اختصار،یہ تبصرہ نگار کے ذاتی خیالات ہیں)