(نوٹ: ملک میں جاری مسجد- مندر تنازع کے درمیان تاج محل پر ہندوتواتنظیموں کےمنصوبےسے آگاہ کرنے کےلئےقارئین کی خدمت میںیہ رپورٹ پیش خدمت ہے)
آگرہ :
گیان واپی مسجد کے اندرعدالت کی ہدایت پر کرائے گئے سروے نے ایک بار پھر پورے ملک کو مندر- مسجد تنازع میں جھونک دیا ہے۔ ایک بڑی آبادی اپنے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر نیوز چینلز پر ہونے والی بحثوں کے درمیان مورخ بن رہی ہے۔ اب بحث صرف گیان واپی مسجد کے مذہبی کردار پر ہی نہیں بلکہ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد، قطب مینار اور دہلی کی جامع مسجد پر بھی ہو رہی ہے۔ اس فہرست میں ایک نام بار بار شامل کیا جاتا ہے- تاج محل کا، جو دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک ہے، جسے دائیں بازو کے جنونی ’تیجو مہالیہ‘ بھی کہتے ہیں۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعرات، 12 مئی کو، بی جے پی رہنما رجنیش سنگھ کی طرف سے دائر درخواست کو مسترد کر دیا، جس میں ’تاج محل کی حقیقی تاریخ‘کا پتہ لگانے کے لئے پینل تشکیل دینے اور اس یادگار کےاندر ہندو دیوی-دیوتاؤں کی مورتیوں کا پتہ لگانے کے لئے 20 سے زیادہ سیل بند کمروں کو کھولنے کاحکم دیا جائے ۔
راجسمند سے بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ اور جے پور کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی دیا کماری نے کہا تھا کہ تاج محل جس زمین پر واقع ہے وہ ان کے آباؤ اجداد کی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران، دائیں بازو کے بہت سے رہنماؤں نے غیر تصدیق شدہ دعوے دہرائے اور پھیلایا کہ تاج محل دراصل ایک ہندو مندر ہے، جو شاہ جہاں کے دور حکومت سے بہت پہلے بنایا گیا تھا۔ 2017 میں، اس وقت کے بی جے پی کے راجیہ سبھا ایم پی ونے کٹیار نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ تاج محل نہیں ہے، بلکہ درحقیقت ’تیجو مہالیہ‘ نام کا شیو مندر ہے، جسے ایک ہندو حکمران نے بنایا تھا۔
آئیے جانتے ہیں کہ دائیں بازو کی جماعت کا یہ نظریہ کہاں سے آیا کہ تاج محل ایک ہندو مندر تھا جسے ’تیجو مہالیہ‘کہا جاتا تھا۔
تیجو مہالیہ کا اصول
انسٹی ٹیوٹ فار ری رائٹنگ انڈین ہسٹری کے فاؤنڈر اور مورخ پی این اوک نے پہلی تھیوری پیش کی کہ تاج محل کی تعمیر کا سہرا مسلم حکمرانوں کو نہیں جاتا بلکہ یہ یادگار دراصل ہندوؤں نے تعمیر کی تھی۔ پی این اوک کی 1989 کی کتاب ’تاج محل: دی ٹرو اسٹوری‘ نے پہلی بار تاج محل کے مذہبی کردار پر موجودہ تنازعات کو شکل دی۔
اس مؤرخ نے اپنی کتاب میں دلیل دی کہ شاہ جہاں کا بنایا ہوا تاج محل دراصل ایک شیو مندر تھا، جو غالباً چوتھی صدی میں ایک بادشاہ پرمردی دیو نے محل کے طور پر بنایا تھا۔
پی این اوک کے مطابق، تاج محل مغلوں کی آمد سے صدیوں پہلے تعمیر کیا گیا تھا اور لفظ تاج محل قدیم ہندو نام تیجو مہالیہ کی غلط املا ہے۔
پی این اوک نے یہ تھیوری دی کہ 12ویں صدی کے آخر میں جب محمد غوری نے ہندوستان پر حملہ کیا تومبینہ ’تیجو مہالیہ‘ کو تباہ کر دیا گیا۔ اس کے بعد جب 16ویں صدی کے وسط میں ہمایوں کو شکست ہوئی تو یہ جے پور شاہی خاندان کے ہاتھ میں چلا گیا۔ جے سنگھ اول ایک سینئر مغل منصب دار اور امبر کا راجہ تھا۔
پی این اوک کے مطابق اس مندر کو شاہ جہاں نے جے پور کے شاہی خاندان سے لے لیا تھا، اور اسے ایک مقبرے میں تبدیل کر کے اس کا نام تاج محل رکھ دیا ۔
’تیجو مہالیہ بمقابلہ تاج محل: عدالت کا دروازہ کب کب کھٹکھٹایا گیا؟
بی جے پی لیڈر رجنیش سنگھ نے الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے سے بہت پہلے، پی این اوک نے بھی تاج محل کے ’سیل بند کمروں‘ کو کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ 1976 میں انہوں نے ‘لکھنؤ کا امام باڑہ ’ہندو محل ہے‘ اور ‘دہلی کا لال قلعہ ’ہندو لال کوٹ ہے‘ کے نام سے کتابیں لکھیں۔
یہ درخواست آگرہ کی ایک ضلعی عدالت میں 2015 میں دائر کی گئی تھی، درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ تاج محل ایک ہندو مندر ہے، اور اسی لیے حکومت کو ہندوؤں کو مندر میں درشن اور آرتی کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔
الہ آباد ہائی کورٹ میں رجنیش سنگھ کی عرضی نے تاج محل پر پی این اوک کے اصول کو دہرایا۔ انہوں نے اپنی درخواست میں کہا کہ ’تاریخ کی کئی کتابوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ 1212 عیسوی میں راجہ پرمردی دیو نے تیجو مہالیہ مندر کا محل بنوایا تھا۔‘
الہ آباد ہائی کورٹ میں رجنیش سنگھ کی درخواست میں کہاگیا ہے کہ مندر بعد میں جے پور کے اس وقت کے مہاراجہ راجہ مان سنگھ کو وراثت میں ملا۔ ان کے بعد یہ جائیداد راجہ جے سنگھ کی نگرانی میں چلی گئی، لیکن 1632 میں شاہ جہاں نے اس پر قبضہ کر لیا اور بعد میں اسے اپنی بیوی کی یادگار میں تبدیل کر دیا ۔‘
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی )