مرزا اے بی بیگ
’’آج میرے لیے کوئی چرچ نہیں…. اگر میں نے اس کے ترجمے اور اشاعت میں ذرا بھی تاخیر کی تو کئی بیواؤں کی جان جا سکتی ہے۔‘‘
یہ الفاظ انگریز مشنری اور محرر جان کیری کے ہیں جن کے سامنے جب لارڈ ولیم بینٹنک کا قانون پیش کیا گیا تو وہ اپنی کرسی سے اچھل پڑے اور اپنا کوٹ ایک طرف پھینکتے ہوئے یہ الفاظ کہے اور پھر شام تک انھوں نے اسے تیار کرکے شائع کر دیا۔
آج سے تقریباً دو سو سال قبل چار دسمبر سنہ 1829 بروز اتوار جب لارڈ ولیم بینٹنک نے انڈیا میں جاری ستی کی روایت کو قابل تعزیر جرم قرار دیا تو ہندو قدامت پسندوں کی جانب سے اسے چیلنج کیا گیا۔ لیکن انگلینڈ میں پھر سے اس کی توثیق کر دی گئی اور یہ بنگال پریزیڈنسی میں قابل تعزیر عمل ٹھہرا۔ اور پھر دو ماہ بعد بمبئی اور مدراس ریزیڈنسی میں بھی اسے نافذ کر دیا گيا۔
یعنی قانونی طور پر یہ دھیرے دھیرے پورے ہندوستان میں نافذ ہوتا گیا لیکن عملی طور پر اس کا پوری طرح سے خاتمہ نہیں ہو سکا کیونکہ یہ بھارت کی اعلیٰ ذات کے ’رجعت پسند‘ ہندو سماج میں گہرا پیوست تھا۔
ہندوستان کی آزادی اور تقسیم ہند کے بعد بھی یہ عمل کسی نہ کسی طور جاری رہا لیکن سنہ 1987 میں ہمارے ہوش و حواس میں راجستھان کے دیورالہ قصبے میں ایک بار پھر جب یہ واقعہ پیش آيا تو حکومت ہند نے اس کے خلاف قانون بنایا جو کہ ستی پریونشن ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس واقعے نے کرۂ ارض کے مشرق و مغرب میں ایک بحث کو جنم دیا جو ہنوز جاری ہے۔ نہ صرف یہ بحث جاری ہے بلکہ 18 برس کی روپ کنور کے ستی ہونے کے معاملے میں مقدمہ ابھی تک عدالت میں زیر سماعت ہے۔
ستی کیا ہے؟
’ستی‘ سنسکرت کے لفظ ’ست‘ سے مشتق ہے جس کے دو معنی ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی آف برمنگھم میں دینیات اور مذہب کے شعبے سے وابستہ ہندوستانی اسکالر شاردا سوگیرتھ راجہ کے مطابق اس کا پہلا معنی بااخلاق، نیکو کار، باعصمت، اچھی خاتون ہوتا ہے۔
اس کا اطلاق ایک خاتون پر بھی ہوتا اور اس عمل پر بھی ہوتا ہے، جس میں ایک خاتون اپنے خاوند کی موت کے بعد اس کے ساتھ ہی اس کی چتا پر اپنی مرضی سے زندہ جلتی یا پھر زندہ درگور ہو جاتی ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب دیوی ستی سے ہے جو ہندوؤں کے دیوتا شیو کی بیوی ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ان کے والد نے ان کے خاوند کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تو انھوں نے اپنی جان دے دی۔
شاردا اپنے تحقیقی مقالے ’کورٹلی ٹیکسٹ اینڈ کورٹنگ ستی‘ یعنی ‘درباری متن اور ستی کی ’مصاحبت‘ نامی مضمون کے تحت لکھتی ہیں کہ ‘ستی بھارت اور اس کے باہر مغرب میں تعلیمی اور عوامی مباحثے میں متنازع موضوع ہے۔
1987 میں انڈیا کی شمال مغربی ریاست راجستھان میں 18 سال کی روپ کنور کی موت کے بعد سے ستی کے موضوع پر ادب کا سیلاب سا آ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی آزادی سے لے کر سنہ 1987 تک تقریباً 40 ستی کے واقعات رونما ہوئے، جن میں سے 28 تو راجستھان کے سیکڑ ضلعے میں ہی رونما ہوئے لیکن روپ کنور کو جو شہرت ملی وہ کسی کو نہیں ملی۔
اس کی وجوہات میں عوامی بیداری اور فیمنسٹ مکتبہ فکر کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ اس کے متعلق جب ہم نے دلی کی امبیڈکر یونیورسٹی میں ہندی زبان و ادب کے پروفیسر گوپال پردھان سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ‘جب دیورالہ میں روپ کنور کی موت کا واقعہ پیش آیا تھا تو اس وقت ہم بنارس ہندو یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اور اس وقت یہ معاملہ بڑی بحث کا موضوع تھا۔
بہت سے لوگ جس میں زیادہ تر اعلیٰ طبقے کے لوگ تھے وہ اس عمل کی تعریف کر رہے تھے۔ ان کے مطابق یہ رجعت پسندانہ رویے کا مظہر تھا اور یہاں سے انڈیا میں جو عمل شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے جس میں عورتوں کو روایت کے نام پر پدرشاہی سماج کے تحت رکھنا شامل ہے۔
گوپال پردھان نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس زمانے میں سماجی تبدیلی کی جو لہر شروع ہوئی تھی اور جو منڈل کمیشن کے روپ میں ہمیں نظر آتی ہے، اس کے خلاف یہ اعلیٰ طبقے کی جانب سے ایک رد عمل تھا جو آج تک جاری ہے۔ اور یہ وہی ذہنیت ہے جس کے تحت سنہ 2012 میں نربھیا ریپ کے واقعے پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت یہ بیان دیتے ہیں کہ ‘ریپ انڈیا میں ہوتا ہے، بھارت میں نہیں۔ گویا یہ دو الگ الگ مقام ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ‘یہ وہی ذہنیت ہے جس کے تحت بہت سے رجعت پسند لوگ یا پھر آسا رام باپو جیسے لوگ ایسا بولتے ہیں کہ اس لڑکی (نربھیا) کو لڑکوں کو ‘بھائی کہہ کر اس سے ایسا نہ کرنے کی التجا کرنی چاہیے تھی۔ انھوں نے کہا کہ ‘یہ وہی ذہنیت ہے جس میں عورتوں پر مظالم کرنے والوں کی حمایت میں لوگ کھلے عام بیان دیتے ہیں اور کٹھوعہ کیس میں آٹھ برس کی بچی آصفہ کے ریپ کے ملزم کے لیے تو وہ ‘ترنگا یاترا تک نکالتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ وہی ذہنیت ہے جو ‘پدماوت فلم کی مخالفت کرتی ہے اور پرکاش جھا جیسے لوگوں کو ‘آشرم پر فلم بنانے سے روکتی ہے اور ان کے ساتھ مار پیٹ کرتی ہے۔ ان کے مطابق ستی کی سوچ والے لوگوں نے ہی قدامت پسندی کے نام پر کئی متنازع کارروائیاں کی ہیں، جس میں بابری مسجد کا انہدام ہو یا دانشوروں کے قتل کا معاملہ ہو سب شامل ہے۔
ستی کی تاریخ
ستی یا اس سے مماثل چیزیں دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی پائی جاتی تھیں لیکن اب وہ تقریباً ناپید ہیں لیکن انڈیا میں فکری سطح پر آج بھی ایسا طبقہ ہے جو خواتین کو ستی کے روپ میں دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ اس کے متعلق ہم نے راجستھان کی تاریخ اور وہاں کے ادب کے ماہر مادھو ہاڑا سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ یہ ایک غیر انسانی اور ظالمانہ عمل ہے لیکن راجستھان میں اس کی موجودگی کے شواہد موجود ہیں۔
مادھو ہاڑا شملہ میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس سٹڈیز میں محقق ہیں اور انھوں نے معرف تاریخی شخصیت ‘میرا بائی پر کتاب تصنیف کی ہے جو انگریزی ‘میرا ورسز میرا یعنی میرا بمقابلہ میرا کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ انھوں نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی راج کو بنگال کا تجربہ تھا، جہاں ستی کی روایت جبری تھی جبکہ راجستھان میں یہ روایت زیادہ تر رضامندانہ تھی۔ چنانچہ میرا جیسی پرشکوہ شخصیت نے اپنے آپ کو اپنے شوہر کی چتا کے ساتھ نہیں جلایا بلکہ انھوں نے بیوگی کو باوقار انداز میں گزارا۔
ان کا کہنا ہے کہ راجستھان کے بارے میں معروف تصنیف ‘راج رتناکر مہاکاویہ میں بھی ستی کا ذکر نہیں ہے یہاں تک کہ 14ویں صدی کے رانا ہمیر سنگھ سے لے کر 16ویں صدی کے اوئل میں رانا سانگا تک کسی بھی راجہ کی بیوی نے ستی کی روایت پر عمل نہیں کیا۔ اور اس دوران ستی کے کسی واقعے کا ذکر تک نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘رانا سانگا کے بعد اس میں اضافہ ہوا لیکن یہ واقعہ بھی نہ کے برابر تھا۔ اس سب کے باوجود جوہر کے واقعات تاریخ میں رقم ہیں۔ مقبول روایت میں رانی پدمنی جوہر کرتی ہیں لیکن راجستھان کی روایت میں تو علاء الدین خلجی پر رتن سنگھ فتح حاصل کرتے ہیں تو پھر جوہر کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔
جوہر اور ستی میں فرق
دلی یونیورسٹی میں ہندی کے پروفیسر آشوتوش کمار کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہے۔ اس میں خواتین جنگ میں اپنے خاوند کی موت کی خبر پر اپنے آپ کو نذر آتش کرتی تھیں اور یہ ایک طرح کا اجتماعی عمل ہوتا تھا۔
‘اور جس طرح ‘پدماوت فلم میں اس کا بالکل آخر میں ذکر ہے تو یہ کہہ دوں کہ ملک محمد جائیسی کی یہ کہانی بالکل ہی افسانوی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ہندی ادب کی اعلیٰ روایات میں کہیں بھی ستی کی تعریف و توصیف نہیں کی گئی ہے۔ یہی بات گوپال پردھان بھی کہتے ہیں کہ ‘پدمنی کوئی نہیں تھی، البتہ ناگ منی تھی۔ اور جائيسی نے جس پدمنی کو پیش کیا ہے اس کی حیثیت کسی دیوی سے کم نہیں، رتن سنگھ اس کے بھکت ہیں جبکہ ناگ منی دنیائے دنی ہے۔
جبکہ مادھو ہاڑا کہتے ہیں کہ جوہر رانیاں یا راج دربار سے متعلق خواتین اس لیے کرتی تھیں کہ شکست کے بعد فاتح حکمراں انھیں اپنے سپاہیوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے جو کہ ان کی عزت نفس کے خلاف عمل تھا۔ لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ‘مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر سے شکست کے بعد رانا سانگا کی 28 رانیوں میں سے کوئی بھی ستی نہیں ہوئی البتہ ان کے بڑے بھائی پرتھوی راج کے مرنے پر ان کی رانیوں نے ستی کی روایت پر عمل کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ مہارانا رائے مل کی بہن رما بائی نے بھی بیوگی کی زندگی شان و شوکت سے گزاری انھیں جاگیر ملی تھی اور انھوں نے مندر بھی بنوائے۔ اسی طرح میرا کے پاس بھی جاگیر تھی البتہ مہاراجا ہری سنگھ کی بیٹی چندرکنوری نے ستی پر عمل کیا تھا۔
بہر حال ان کے مطابق یہ بہت زیادہ عام نہیں تھا لیکن لوگ ایسی خواتین کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں کیونکہ ان کی یاد میں بہت سے ستی ستنبھ راجستھان میں جا بجا ملتے ہیں۔ اگرچہ راجستھان میں یہ روایت راجپوتوں میں زیادہ اہمیت کی حامل تھی کیونکہ انھیں راجستھان میں زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا لیکن بنگال میں یہ چلن برہمنوں میں عام تھا۔ مادھو ہاڑا کہتے ہیں کہ وہاں ودھوا یعنی بیوہ کی زندگی بہت مشکل تھی اور وہ سماج سے بالکل کٹ سی جاتی تھی اس لیے انھیں ستی ہوجانے کی ترغیب دی جاتی تھی جو عموماً جبری ہوتی تھی۔
(بشکریہ: بی بی سی )