تحریر: مولانا عبد الحمید نعمانی
چاہے فرد ہو یا جماعت ،پارٹی، وہ وقت کے آئینے کے سامنے ہوتی ہے ، گرچہ آئینہ الٹا دکھاتا ہے ، تاہم چہرہ اور وجود کونہیں چھپایا جا سکتا ہے ، پرکھ اور پہچان ہوتی رہتی ہے ، جب مسلم سماج میں دین و مذہب کے نام پر ثواب و صواب سمجھ کر نئی باتوں اور بد عتوں کو رائج کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو اس کے خلاف فوراًمزاحمت شروع ہو جاتی ہے ، جس سے ہوا پرستوں کی سرگرمیاں دم توڑ جاتی ہیں ، یا وہ اپنی ماند تک سکڑ کر رہ جاتی ہیں ، لیکن ہند و تووادی سماج میں بنیادی اصول و تعلیمات کے تحت ان کے خلاف خود ساختہ نظریات و مراسم کے انسداد کے لیے مزاحمت کی کوششوں کا عموماً فقدان نظر آتا ہے ، البتہ سابقہ جاری روایتوں میں عصری تقاضوں سے غیر موافق ہونے کے پیش نظر ملک کے مختلف حصوں میں الگ ناموں اور عنوانات سے اصلاحی تحریکات برپا ہوتی رہی ہیں ، کبیر، نانک، راجا رام موہن ، روی داس ، رما بائی کی اصلاحی سر گرمیاں اسی طرح کی تحریکوں کے زمرے میں آتی ہیں،لیکن ان کا ہندو تو وادیوں کی جاری اور پیش کردہ سرگرمیوں سے دور دور تک کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہے ۔
خاتم الانبیاءرسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر و تضحیک اور توہین، سناتن سنسکرتی اور دھرم و روایات کے قطعی خلاف ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار ووجوداور تعلیمات کو عہد قدیم سے ، ہندو تو وادیوں کے بر خلاف موقر جگہ رہی ہے ، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سناتن سنسکرتی اور دھرم سداسے ارتقاءپذیر رہا ہے ، اس کے متعلق تعین و تشخص کے ساتھ یقینی طور سے بتانا بہت مشکل ہے کہ بھارت کے کس حصے اور کس کس کی سنسکرتی اور روایات و مراسم ، سناتن دھرم و روایات کے زمرے میں آتی ہیں، آج جونا اکھاڑا کے بنادیے گئے مہانڈلیشور، یتی نرسمہا نند گری ، نیرج آترے ، پشپیندر، ایس شنکر جیسے درجنوں لوگ جس سناتن سنسکرتی کے نام پر بھارت کے تکثیری معاشرے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور متحدہ یادگاروں اور مقامات کو ختم کرنے اور تاریخ نگاری کے عنوان سے تاریخ مسخ کرنے اور تاریخ سازی کی مہم میں لگے ہوئے ہیں ،اس کا بھارت کی متحدہ سنسکرتی اور تکثیری سماج سے کس حد تک تعلق ہے؟ اگر اس جہت سے مثالوں اور حوالوں سے بھارت کے افکار و روایات کے متعلق ملک کے وسیع تر تناظر میں سنجیدہ بحث و گفتگو کا سلسلہ شروع کر کے اسے آگے بڑھانے کا کام ہوگا تو اس کے باشندوں کے سامنے کئی طرح کے حقائق سامنے آئیں گے ۔ بہت سے ہندوتووادی ،یوگی کی آڑلے کر جس طور سے اسلام ، قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف محاز آرائی کرتے ہوئے ان کومٹانے کا نعرہ لگا رہے ہیں اس کا اصل سناتن روایات و افکار سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ناتھ پنتھ اوربابا گورکھ ناتھ کے فکرو کردار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رول سے ہم آہنگی اور قبولیت نظر آتی ہے ، اس کے برعکس جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ برہمن وادی سماج اور ہندوتو عناصر کے داخلی بحران کا نتیجہ اور ثابت و مثبت آدرش کے متعلق تذبذب و محرومی کی علامت ہے ، غیر سنجیدہ سوچ کے سبب سے پیدا عملی و نظریاتی بحران سے نکلنے کی راہ تلاش کرنے میں ہندو تو وادی عناصر ابھی تک ناکام ہیں ، اس کی وجہ ہے ابتدا سے حال تک سماجی و نظریاتی رشتے کا عدم تسلسل ۔
ذرائع روایات کے مطابق دنیا کو زہر آلود ہونے سے بچانے والے ،بذات خود زہر پی کر نیل کنٹھ بن کر دنیا کو امرت کا عطیہ دینے والے شیو، مصیبت زدوں کے کام آنے والے ، جذبہ خدمت سے لبریز ہوتا ہنومان اور بہتر سماجی و روایاتی اور خاندانی اقدار کے محافظ ، وچن ، وعدہ نبھانے والے رام چندر اور اندر کے بھرشٹ کردار کے سبب اس کی پوجا بند کرانے والے کرشن (مقدمہ شریمد بھاگوت گیتا،دیانند ورما صفحہ 12 مطبوعہ ڈائمنڈ بکس دہلی 2015)کے بر خلاف ہندو تو پر مبنی پر تشدد سر گرمیوں کے لیے ، بھارت کے تکثیری معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے ، مذکورہ کرداروں کی مذہبی علامتوں کا استعمال کرتے ہوئے فرقہ وارانہ خطوط پر ملک کے مشترکہ سماج کی تقسیم کی مہم ، بھارت کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے یہاں کی روایت میں کثرت میں وحدت کی سوچ کا ر فرما ہونے کے سبب ، عبادات اور زندگی گزارنے کے طریقوں کے اختلافات ،کوئی مسئلہ نہیں ہیں ، نماز،اذان اور دیگر طرح کے مذہبی اعمال و مراسم کی ادائیگی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اور تشدد و تصادم کا ماحول ایک طرح کا نیا ظاہرہ اور نفرت انگیز انتخابی سیاست اور فرقہ وارانہ ذہنیت کی پیدا وار ہے ، بھارت کی روایت اور تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ برٹش سامراج سے شروع ہو کر حال تک میں جاری فرقہ وارانہ حالات کا اپنے حق و مفاد میں استعمال اکثریتی سماج کی بے خبری سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کے سوا کچھ اور نہیں ہے، اس سلسلے میں بنیادی سوالات اٹھاتے ہوئے بھرم کو دور کرنا، وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ بابا گورکھ ناتھ مورتی پوجا اور تعددالہ کے تصور کے خلاف تھے ، انھوں نے یہاں تک کہا ہے کہ میں جنم سے ہندو، یوگ سادھنا سے جل کر جوگی اور مسلمان پیروں کا ادراک توحید میرے ساتھ ہے۔
بابا گورکھ ناتھ نے رسول اکرم کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ تلوار کے بل پر مذہب کی تبدیلی و تبلیغ محمد صاحب(صلی اللہ علیہ وسلم )کے عقیدے کے خلاف ہے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )پریم کا پیغام دے رہے تھے ، (دیکھیں گورکھ ناتھ ، جیون اور درشن صفحہ 64اور82، از کنہیا سنگھ ، مطبوعہ لوک بھارتی پرکاشن -پریاگ راج اور دہلی ،2020) اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی باتیں ، گورکھ وانی میں موجود ہیں جو ہندوتو وادیوں کے فکرو کردار کے خلاف ہیں ، یتی نرسنہا نند گری ، نیرج آترے ، پشپندر، پروفیسر راگی وغیرہم سیدھا سیدھا پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ اور ان کے حوالے سے تحقیر و توہین کرتے ہوئے تشدد، قتل ،زنا، لوٹ پاٹ وغیرہ کی باتیں کرتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و معنویت کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ جھوٹ ،بد تہذ یبی اور برہنہ گفتاری سے کام لینے کی ضرورت پڑ رہی ہے ، ایسے افراد کا اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صحیح مطالعہ تو دور کی بات ہے ۔
ہندو مت اور اس کی تاریخ و تہذیب اور روایات کا بھی صحیح مطالعہ نہیں ہے ، وہ اپنی باتوں کے لیے کسی مستند و معتبر بنیادی ماخذ کا حوالہ نہیں دیتے ہیں ۔ ایسے لوگ صرف اپنی طرف سے مفروضہ دعوے کے ساتھ اشتعال انگیزی کر کے سماج کو فرقہ پرستی اور تشدد و قتل غارگری کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ، انھوں نے کبیر کی طرح سب کے لیے، خیر کا کام کرنے کے بجائے ،خود کو مفاد و تفوق پرستی کے بازار میں کھڑا کر دیا ہے ۔ یہ بھارت کا المیہ ہے کہ ایسے سماج دشمن عناصر حاوی ہوتے ہوئے نظرآرہے ہیں یہ اور بھی افسوس ناک بات ہے کہ سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں اور اشخاص، بھارت اور اس کے آئین کی روح و روایت اور سیکولر کردار کے تحفظ کے بجائے ، ہندو تو وادی طاقتوں اور فرقہ پرست عناصر کی راہ پر چل کر منزل تک رسائی کی کوشش کر رہے ہیں اور شعوری، غیر شعوری طور سے ہندو تو وادیوں کے دباؤ میں آکر ان ہی کے راستے اور اصطلاحات کو اختیار کر کے ان کو تقویت پہچانے کا کام کر رہے ہیں ، سماج وادی پارٹی کے لیڈروں کو ہندستانی باشندوں کو پاکستان بھیجنے، پر شورام کا مندر بنانے اور جناح کے حوالے سے باتیں کرنے کی آخر ضرورت کیوں پڑ رہی ہے ؟ بہوجن سماج پارٹی کو اپنے انتخابی نشان ہاتھی کو برہما، وشنو، مہیش اور گنیش سے جوڑ کر دکھانے کی ضرورت کس لیے پیش آرہی ہے، کم از کم ڈاکٹر امبیڈکر کے22پرتگیہ(عہد نامہ)کو پیش نظر رکھا جاتا ۔
کانگریس کے لیڈر خود کو بی ، جے پی ، آر، ایس ایس سے زیادہ ہندو وادی باور کرانے کی کوشش کیوں کر تے نظر آتے ہیں ؟یہ سب یہاں تک کیسے آگئے ہیں اور کیوں ؟کیا یہ سب ملک کے آئین اور بھارت کی روایات سے ہم آہنگ اور اس کی ترقی ، استحکام اور شناخت کے موافق ہیں ؟ملک کی تہذیب و ترقی ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سماجی تعلقات و روابط کے حوالے سے درجنوں مسائل ہیں ، جن پرسنجیدہ ماحول میں چرچا کر کے حقائق تک پہنچنے کی ضرورت ہے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)