تحریر: اپوروانند
ہریانہ کےوزیر اعلیٰ نے جمعہ کو گڑگاؤں میں کھلی جگہوں پر نماز پڑھنے پر دائیں بازو کی کئی تنظیموں کے اعتراضات کےجواب میں گڑگاؤں میں نامہ نگاروں سے کہا، یہاں(گڑگاؤں) کھلے میں نماز ادا کرنے کی روایت برداشت نہیں کی جائےگی۔کوئی دوسرا مہذب معاشرہ ہوتا تو وزیر اعلیٰ کہتے،یہاں نماز میں خلل ڈالنے والی غنڈہ گردی برداشت نہیں کی جائے گی۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے گڑگاؤں میں جمعہ کی نماز کے دوران ‘ہندو’گروپ جو کر رہے ہیں اسے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وہ اعتراض نہیں کر رہے ہیں، وہ نماز کے دوران نمازیوں پر حملہ کر رہے ہیں، وہ نماز میں خلل ڈالنے کے لیے بھجن کیرتن کر رہے ہیں۔یقیناًاس کو اعتراض نہیں کہا جا سکتا، لیکن وزیر اعلیٰ انہی لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر خوش اسلوبی سےحل نکالنے کی بات کر رہے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندو راشٹر ہو یا نہ ہو، ہم ایک غنڈہ راج میں تبدیل چکے ہیں۔
گزشتہ جمعہ کو ایک بار پھر گڑگاؤں میں’ہندوؤں’نے نماز کی مقررہ جگہ پر ٹرک، گاڑیاں کھڑی کر دیں، نعرے لگاتے ہوئے اکٹھا ہوئے اور کہا کہ وہاں وہ جنرل راوت کوخراج عقیدت پیش کریں گے۔اس سےقبل ہریانہ کے روہتک سے خبر ملی کہ ’ہندوؤں‘کی ایک بھیڑ نے گرجا گھر میں داخل ہونے اور اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ دوارکا میں اس سےقبل عیسائیوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا تھا۔ مدھیہ پردیش کے ودیشا میں ایک مشنری اسکول میں داخل ہونے کے بعد ’ہندوؤں‘کی بھیڑ نے بچوں کو پتھر مارے اور اسکول میں غنڈہ گردی کی۔
کرناٹک میں عیسائیوں کی عبادت، ان کے گرجا گھروں پر حملے کی خبریں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ چھتیس گڑھ میں عیسائیوں پر حملے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔سڑک پر پادری کو زدوکوب کرنے سے لے کر عیسائیوں کے گھروں میں ہونے والے اجتماعات یایوں ہی ان پر حملے اب خبرکے زمرے میں ہی نہیں رہ گئے ہیں۔یہ یونائیٹڈ کرسچن فورم یا اے ڈی ایف جیسے گروپ ہیں کہ ہمیں اس طرح کے تشدد کے بارے میں معلوم ہو پا رہا ہے۔اس سال اب تک عیسائیوں کے خلاف تشدد کےتقریباً350واقعات کی اطلاع ہے۔ ان میں سے صرف 40معاملوں میں پولیس رپورٹ درج کرنے کو رضامندی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکاری طور پر انہیں جرم ہی نہیں مانا جائے گا۔
اسی طرح ہر جمعہ کو نمازیوں پر جو حملے کیے جا رہے ہیں، کیااس کو گڑگاؤں پولیس جرم کے طور پر درج کر رہی ہے؟ اگر کر رہی ہوتی تو ان پر کارروائی بھی ہوتی۔ وہی پرتشدد بھیڑ باربار لوٹ کر نماز پر حملے نہیں کرتی۔اگر یہ ہر جمعہ کو ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ گڑگاؤں پولیس کی نگاہ میں پرتشدد ہجوم قابل احترام گروہ ہے، جس سے سمجھوتہ کیا جانا چاہیے۔ وہ بھیڑ کہہ رہی ہے کہ ہم کھلے میں نماز نہیں پڑھنے دیں گے۔خبر ہے کہ بیٹھک میں پولیس افسران خوشامدی انداز میں ان سے کہہ رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ نماز کی جگہیں کم ہوتی جائیں گی۔آپ صبر وتحمل سے کام لیں۔جس جگہ نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے وہاں ٹرک، گاڑیاں آرام سے کھڑی ہو رہی ہیں تو ماننا چاہیے کہ پولیس ایسا ہونے دے رہی ہے۔وہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ روکنا چاہتی تھی، روک نہیں پائی۔ اب ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نے بھی کہہ ہی دیا،جو پچھلے ہفتے تک یہ گروہ کہہ رہے تھے کہ کھلے میں نماز برداشت نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ تشدد کا ماخذ معلوم ہو گیا۔تشدد کیسے ہو رہا ہے اس کی تفصیلات پڑھ کر ہمیں شرم آتی ہے کہ ہم اس ملک میں رہ رہے ہیں۔
ایک پادری کو پیٹتے ہوئے اس کی اہلیہ کو زبردستی سیندور لگانے سے کیا خوشی ملتی ہے، یہ تصور کرنا بھی محال ہے۔ یا شاید اتنا بھی مشکل نہیں۔ہم جانتے ہیں کہ تشدد کی ایک خاص خوشی ہوتی ہے۔ آپ کسی پر تشدد کر سکتے ہیں، کسی کی تذلیل کر سکتے ہیں،یہ طاقت کا احساس کسی بھی نشہ آور شے سے زیادہ ہے۔ یہ نشہ ہندوستان میں‘ہندوؤں’کو بانٹا جا رہا ہے۔اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ غنڈوں کو ہندو کیوں کہا جا رہا ہے۔ ٹھیک بھی ہے۔ لیکن غنڈہ گردی کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستان میں ہندوؤں کے تسلط کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ جو لوگ غیر ہندو ہیں، انہیں ان غنڈہ گروہوں کی بات مان کر اپنی حدود میں رہنا پڑے گا۔
چند سیکولرہندوؤں کو چھوڑ دیں تو وسیع تر ہندو سماج میں اس کے بارے میں نفرت یا معلومات کی کوئی علامت نہیں ہے۔ یہ بالواسطہ حمایت ہے جس کا اظہار خاندانوں اور دوستوں کے قریبی گروپوں میں ہوتا ہے، کبھی چالاکی سے اور کبھی تشدد اور فحاشی کے ساتھ۔اب تک یہ اطلاع نہیں ہے کہ کسی ہندو مذہبی گرو نے اس طرح کے تشدد کی مذمت کی ہو۔ شنکراچاریہ صرف شنکراچاریہ ہی رہے! بقیہ نویہ دھرم گرو خود نفرت پھیلانے والے ہیں۔غنڈوں کی حمایت لیےدلیل تلاش کرتے ہیں ۔جیسےیہ کہ مسلمان کھلے میں بھیڑ لگا کرنماز ہی کیوں پڑھتے ہیں؟ لیکن پھر اس کاکیا جواب ہے کہ جب ایک گردوارے نے نماز کے لیے دروازہ کھولا تو یہ پرتشدد ہجوم وہاں بھی پہنچ گیا اور سکھوں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ نمازیوں کو جگہ نہ دیں۔ گرو تیغ بہادر کی یاد دلاتے ہوئے وہ شرمندہ ہوئے کہ وہ اپنے قاتل کی اولادوں کے لیے اپنے دروازے کیسے کھول سکتے ہیں۔
اس کا مطلب صاف ہے۔ مسئلہ کھلی جگہ کے غلط استعمال کا نہیں ہے۔ مسئلہ مسلمانوں کی نمازوں سے ہے۔ یا صرف مسلمانوں سےہی ہے؟ اس سے بھی کہ ان کو اس ہندوستان میں دوست کیوں مل رہے ہیں؟ کیا اعتراض کھلی جگہ کے غلط استعمال پر ہے؟ تو پھر اس کھلی جگہ پر ہون، کیرتن کیوں؟ کیوں اس جگہ پر لوگ اپنے ٹرک اور گاڑیاں لگا رہے ہیں؟یہ کیسے جائز ہے؟کیا یہ دلیل ہے کہ ہم یہ اس لیے کر رہے ہیں کہ ایسا کرکے ہم پہلے مسلمانوں کا ان جگہوں پر آنا محال کردیں ، پھر ہم بھی چلے جائیں گے؟کھلی جگہوں کا استعمال کیسے ہو،کیا اب یہ‘ہندو’گروپ طے کریں گے؟مسلمانوں یا عیسائیوں پر تشدد کے لیے ہم دلائل تلاش کرتے ہیں۔ جیسے قرآن میں تشدد کی تبلیغ ہے۔ لیکن اکثر ہندو دیوتا اور دیوی مسلح ہوتے ہیں، وہ ‘اسروں’کی جگہ پر قبضہ کرتے ہیں، انہیں جنگلوں سے نکال دیتے ہیں، ان کو قتل کرتے ہیں اور گیتا ہو یادیگر صحیفے، تشدد اور خرافات کی حمایت کرتے ہیں، یہ کہہ کر کیا ہندوؤں کے خلاف تشدد کو جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
یہ حماقت ہے یا غنڈہ گردی؟ ہم جانتے ہیں کہ تمام مذہبی صحیفے پیچیدہ ہیں اور ان کی کئی طریقوں سے تشریح کی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ اپنے تشدد کے جواز کے لیے قرآن یا گیتا کا استعمال کر سکتے ہیں۔جیسا کہ ایک اقلیت مخالف تنظیم کے ماؤتھ پیس نے اپنا نام کرشن کے پنججنیہ کے نام پر رکھ لیا ہے۔ اس اس مہاشنکھ کا گھوش کس کے خلاف جنگ کے لیے؟یہ نام ہی کیوں؟تو کیا ہم ہندوؤں سے کہیں کہ پہلے گیتایااس رام کتھا کی تدوین کریں جس میں شمبوک کو رام نے مارا تھا، تب ہی وہ کرشن یا رام کا نام لے سکتے ہیں، ورنہ ان پر حملہ کیا جائے گا، کیونکہ وہ تشدد کے حامی متون کے پیروکارہیں؟ ہندوؤں کو یہ سب کچھ مضحکہ خیز لگے گا، لیکن انہیں قرآن کے بارے میں یہی کہنا کچھ عجیب نہیں لگتا۔پھر ہم دلیل بدل لیتے ہیں اور کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ مسلمان آرتھوڈوکس ہیں، عورت مخالف ہیں،جاہل ہیں؛ وغیرہ وغیرہ۔ اگر ایسا ہے تو بھی ان کے خلاف تشدد کا حق’ترقی پسند’ہندوؤں کو مل جاتا ہے!
کیا وہ ان کی اصلاح کے لیے ان پر تشدد کر رہے ہیں؟ کیا ہم مسلمان عورتوں کے حقوق کے لیے مسلمان مردوں پر حملہ کرتے ہیں؟ جب بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد کی بات ہوتی ہے تو ہم یہ سارے دلائل کیوں تلاش کرتے ہیں، کیا ہم اس پر غور کریں گے؟اسی طرح جب اعداد و شمار سے ثابت ہوجاتا ہے کہ عیسائیت کی کوئی سازش یا مہم نہیں چل رہی ہے کہ ہندوستان کی آبادی میں عیسائیوں کی تعداد برسوں سے تقریباً ٹھہری ہوئی ہے، یا جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان بچوں کی شرح پیدائش میں کمی آرہی ہےتو ہم اعدادوشمار پر پر یقین نہیں کرنا چاہتے۔پھر ہم اُن کی اجتماعات میں خُداوند کےمعجزات کا حوالہ دے کر کہنا چاہتے ہیں کہ انہیں ٹھیک کرنا ضروری ہے۔بہت سے باباؤں کے ستسنگ میں جولایعنی باتیں ہوتی ہیں، کیااس کی وجہ سے ہم ان پیروکاروں پر حملے کو جائز ٹھہرائیں گے؟
اگرچہ ہم خود ان حملوں میں ملوث نہ ہوں، ہم خود کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے جائز وجوہات ہیں۔ اور ہم انہیں ڈھونڈ کر باہر لاتے ہیں۔ وہ تشدد جو ہم خود کبھی نہیں کرتے۔ تشدد کے لیے مشترکہ بنیاد تیارہوتی ہے۔اس پر تشدد کرنے والے اور ان کی منطق تلاش کرنے والے ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ تو جو لوگ تشدد میں سرگرم نہیں ہیں ، کیاوہ اس سے پلہ جھاڑ سکتے ہیں؟لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جاناچاہیے کہ ہم ان تعصبات یا گمراہ کن عقائد کے زور سے تشدد کرنے نہیں نکل پڑتے۔ ہم اپنے ذہن میں تعصبات، غلط فہمیوں کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، ایک دوسرے کے پڑوس میں رہتے ہیں۔تشدد کو منظم طور پر برپا کیا جاتاہے،یہ منصوبہ بند ہوتا ہے۔ تقریباً ہر تشدد مقامی تشدد لگتا ہے، لیکن اس کی تحریک کا ذریعہ ایک اقتدار ہے۔ وہاں سے ہدایات ملتی ہیں۔ جس طرح کرناٹک میں عیسائی مخالف تشدد کاابال آگیا ہے توایسا نہیں ہے کہ ہندو عوام پنے عقائد کی وجہ سےعیسائیوں کو کھوج کھوج کر ان پر حملے کرنے لگی۔جب کرناٹک میں بی جے پی حکومت نے تبدیلی مذہب مخالف قوانین، چرچ کے سروے وغیرہ پر بحث شروع کی تو عیسائیوں پر حملے بڑھ گئے۔
یہ واضح ہے کہ کرناٹک حکومت کے اس اعلان اور سڑک پر ہونے والے تشدد کے درمیان کوئی رشتہ ہے۔مسلمانوں پر حملوں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ ہندو مسلمانوں کے بارے میں بہت سے تعصبات رکھتے ہیں۔ اور یہ زمانے سے ہیں۔ لیکن 2014 سے ان پر حملوں اور ان کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کا جو سیلاب آیا، وہ پہلےویسا کیوں نہیں تھا؟ کیونکہ ایک سرگرم مسلم مخالف سیاسی جماعت مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔جب اقتدار کی چوٹی پرمسلم مخالف تشدد کا پرچار کرنے والے پہنچ گئے اور تشدد کو کنٹرول کرنے والے ریاستی ادارے ان کے ہاتھ آگئے تو ان کے خلاف تشدد کے لیےمسلم مخالف تعصبات کو استعمال کرنا آسان ہو گیا۔یہ اطمینان ہوا کہ اس تشدد کو روکا نہیں جائےگا۔اس تشدد کو روکنے کی کوشش کرنے والوں کا کیا حشر ہوگا، یہ اتر پردیش کے پولیس افسر سبودھ کمار سنگھ کے قتل سے پتہ چل گیا۔ اس نفرت انگیز پروپیگنڈے پر قابو پانے کی کوشش کرنے والے کو کیا سامنا کرنا پڑے گا، یہ مرکزی حکومت کے افسر آشیش جوشی کی معطلی سے معلوم ہو گیا۔
پچھلے 7 سالوں میں باربارمسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد کے اشارے کیےگئے ہیں اور ان پر بڑے پیمانےپر دلیل دی گئی ہے۔ جب آپ آبادی کنٹرول کے نام پر قانون بناتے ہیں، اپنی بیٹیوں کی دوسرے مذاہب میں شادی روکنے کے نام پر، مسلمان عورتوں کو ان کے مردوں سے بچانے کے نام پر قانون بناتے ہیں تو ان کے خلاف تشدد کے لیے زمین تیار کرتے ہیں۔سات سالوں میں ہر ریاست کے گاؤں اور قصبوں میں اچانک کیسے پرتشدد تنظیمیں نمودار ہونے لگیں؟ کیوں ہر جگہ مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملے ہونے لگے؟کیا مقتدرہ سیاست اور اس تشدد کا براہ راست تعلق نہیں؟
سارا ریاستی ادارہ حتیٰ کہ فوج کا ایک بڑا طبقہ بھی اس متشدد نظریے کی حمایت میں بار بار سامنے آیا۔ پہلے سےمسلمان اور عیسائی مخالف تشدد کےنظریہ والا آر ایس ایس کا وسیع نظام اور یہ ریاستی اقتدار-ان کےمہلک میل نے اس تشدد کو ایندھن دیا ہے۔جب تک اس نظریے کو اقتدار سے بے دخل نہیں کیا جاتا، اس تشدد میں کمی کا امکان نہیں ہے۔ لہذا ہم یہ نہ کہیں کہ لوگوں کے ذہنوں سے تشدد کو نکالنا ہے۔ وہ ناممکن ہے۔
اس تشدد کے اظہارپر سزا کا خوف ہی اسے ذہن میں ہی رکھے گا۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی قیمت ذہن سے نکل کر سڑک پر آتے ہی ادا کرنی پڑے گی۔ اس لیے اب تشدد کو روکنا ضروری ہے۔میں اپنے خلاف آپ کے ذہنی تعصب کو دور نہیں کر سکتا، لیکن میں آپ کو اس کے بہانے اپنے اوپرتشدد کا حق نہیں دے سکتا۔ اس کے لیے ریاست کا میرے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ وہ ریاست اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہے۔
(بشکریہ: دی وائر، یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)