شام میں عبوری حکومت کے سربراہ احمد الشرع کی اہلیہ لطیفہ سمیر الدروبی کا نام پہلی بار گذشتہ ہفتے کے اوائل میں اس وقت سامنے آیا جب انھیں اپنے شوہر کے ہمراہ سعودی عرب اور ترکی کے دو سرکاری دوروں کے دوران دیکھا گیا۔لطیفہ سمیر الدروبی کی ان سرکاری دوروں میں موجودگی میڈیا کی دلچسپی کا باعث بنی کیونکہ اس سے قبل وہ عوامی حلقوں میں نہیں جانی جاتی تھیں۔ احمد الشرع نے بتایا تھا کہ ماضی میں وہ جن حالات سے گزرے ہیں اُن کی وجہ سے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ پہاڑوں میں رہنے کے علاوہ متعدد رہائش گاہیں بھی تبدیل کرتے رہے ہیں۔شامی نژاد امریکی ڈاکٹر اور سیاسی کارکن ریم البزم نے الشرق ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ ’لطیفہ الشرع کی اکلوتی اہلیہ ہیں، اور وہ اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔‘
لطیفہ الدروبی کی پہلی عوامی جھلک نے میڈیا کی توجہ اُس وقت حاصل کی جب وہ گذشتہ ہفتے سعودی عرب کے دورے کے دوران انھیں احمد الشرع کے پہلو میں دیکھا گیا۔الشرع اور لطیفہ نے عمرہ ادا کیا اور اس دوران لی گئی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور لوگ لطیفہ کے بارے میں سوالات کرتے نظر آئے۔
لطیفہ الدروبی: خاندانی پس منظر اور تعلیم
مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہی
شام کی خاتون اول کے بارے میں ابھی تک زیادہ تفصیلات میسر نہیں ہی تاہم بعض اخبارات اور ذرائع ابلاغ نے اُن کے خاندان اور زندگی کے بارے میں کچھ تفصیلات شائع کرنا شروع کر دی ہیں۔
سعودی اخبار ’عکاز‘ کی خبر کے مطابق لطیفہ سمیر الدروبی کا تعلق شام کے قصبے ’القریطین‘ سے ہے اور وہ تین بیٹوں کی ماں ہیں۔
اخبار نے ’غیر سرکاری ذرائع‘ کے حوالے سے بتایا کہ لطیفہ نے عربی زبان اور لٹریچر میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔اُن کے خاندان میں معروف مذہبی شخصیات شامل ہیں جیسے شیخ عبدالغفار الدروبی۔ شیخ عبدالغفار الدروبی شام کے ایک معروف قاری تھے جن کی سنہ 2009 میں جدہ میں وفات ہوئی تھی۔مشرق وسطیٰ کے امور کا تجزیہ کرنے والے معروف ترین امریکی میڈیا اداروں میں سے ایک ’المانیٹر‘ کے مطابق ’شام میں الدروبی خاندان کی جڑیں عثمانی دور تک پھیلی ہوئی ہیں، جب اُن کے آباؤ اجداد میں سے ایک علاء الدین الدروبی نے سلطنت عثمانیہ کے سفیر کی حیثیت سے شام میں خدمات انجام دیں اور بعدازں وہ سنہ 1920 میں شام کے دوسرے وزیر اعظم بنے۔ لیکن وزیراعظم بننے کے صرف 26 دن بعد انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔‘