نئی دہلی :(ایجنسی)
یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کے نئے چیئرمین منوج سونی کے بی جے پی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ گجرات کے ایک مذہبی فرقے سے بھی وابستہ ہیں۔ایسا مانا جاتا ہے کہ جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو منوج سونی ان کے اسپیچ رائٹرز میں سے ایک تھے۔ نریندر مودی سے قربت کی وجہ سے انہیں ‘چھوٹے مودی’ کہا جاتا ہے۔
آن لائن پورٹل دی وائر کی رپورٹ کے مطابق سونی اس سے پہلے ایم ایس یونیورسٹی وڈودرا کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے والے ملک کے سب سے کم عمر شخص تھے۔خبروں کے مطابق، وائس چانسلر کی حیثیت سے انہوں نے آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگوں کو یونیورسٹی کے کئی اہم فیصلوں پر اثر انداز ہونے دیا۔ دوسری طرف اپنی کتاب ‘ان سرچ آف تھرڈ اسپیس’ میں سونی نے 2002 کے گجرات فسادات کو ہندوتوا کے بیانیے کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔
سونی بچپن سے ہی سوامی نارائن فرقہ کے انوپم مشن سے وابستہ تھے۔ جنوری 2020 میں انہیں ‘نشکرما کرمایوگی’ کا خطاب دیا گیا۔ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ایک عام اور سادہ سے پس منظر سے تعلق رکھنے والے سونی نے ممبئی میں اگربتیاں بیچنے سے لے کر 2005 میں ایم ایس یونیورسٹی میں ملک کے سب سے کم عمر وائس چانسلر بننے تک کا سفر طے کیا۔ان کی تعلیمی اہلیت کے بارے میں بات کریں تو انہوں نے بین الاقوامی تعلقات کے مطالعہ (انٹرنیشنل اسٹڈیز) میں مہارت کے ساتھ سیاسیات کی تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے 12ویں (سائنس) کے امتحان میں فیل ہونے کے بعد راج رتنا پی ٹی پٹیل کالج میں آرٹس کی تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے ‘پوسٹ-کولڈ وار انٹرنیشنل سسٹمیٹک ٹرانزیشن’ کے عنوان سے ہند-امریکہ تعلقات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی تعلیم کے بعد انہوں نے سردار پٹیل یونیورسٹی میں پڑھایا۔ ان کی پڑھائی کو انوپم مشن نے فنڈ دیا تھا۔ان کی ڈاکٹریٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے یو پی ایس سی نے سونی کے پروفائل میں لکھا ہے، ‘1992 اور 1995 کے دوران اپنی نوعیت کا مطالعہ۔’یو پی ایس سی کے مطابق، ان کی تحقیق کو بعد میں ‘انڈراسٹینڈنگ دی گلوبل پالیٹیکل ارتھ کویک’ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔
یو پی ایس سی کے مطابق، ان کی تحقیق کو بعد میں ‘انڈراسٹینڈنگ دی گلوبل پالیٹیکل ارتھ کویک’ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔قبل میں یو پی ایس سی کے چیئرمین عام طور پر ایک بہترین تعلیمی اور پیشہ ورانہ ریکارڈ کے ساتھ نامور ماہر تعلیم ہوا کرتے تھے۔ اکثر یہ بیوروکریٹس ہوتے تھے۔سونی اب آل انڈیا سروسز میں تقرریوں کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے، خدشہ ہے کہ ان کے فیصلے سیاسی طور پر متاثر ہوں گے اور تمام اہم عہدوں پر ایک خاص نظریے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تقرری کی جائے گی۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے استاد اور کالم نگار اپوروانند نے کہا، اس طرح کے شخص کو یو پی ایس سی کے چیئرمین کے عہدے پر ترقی دینے کا صاف مطلب ہے کہ اب یہ ادارہ جسے عام طور پر سیاسی نظریات سے پاک ہونا چاہیے، اب یہاں منصفانہ تقرریاں نہیں ہوں گی۔ یہ واضح ہے کہ پہلے لیٹرل انٹری شروع کی گئی تھی، اب تمام اہم آسامیاں ایک مخصوص نظریے کے لوگوں سے پر کی جائیں گی۔
اپوروانند نے ٹوئٹ کر کے کہا، ہندوستان پر گرفت بنانے کے لیے آپ کی آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسران پر گرفت ہونی چاہیے۔ جس طرح سے یو پی ایس سی میں لیٹرل انٹری متعارف کروائی گئی، اس سے یہ واضح تھا۔ اب ایک طرح سے حکومت نے کھلے طور پریو پی ایس سی کو اوورٹیک کر لیا ہے۔اپوروانند نے دی وائر کو ایم ایس یونیورسٹی وڈودرا کے وائس چانسلر کے طور پر سونی کے دور کے بارے میں بتایا، وڈودرا کی مہاراجہ سیاجی راؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر سونی کے دور میں یونیورسٹی کے معیارات میں زبردست گراوٹ دیکھنے کو ملی۔ یونیورسٹی کی فائن آرٹس فیکلٹی ایک باوقار فیکلٹی ہوا کرتی تھی لیکن ان کے دور میں یہ تباہ ہو گئی۔
ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی جواہر سرکار نے ٹوئٹ کرکے سونی کی تقرری کی سختی سے مخالفت کی ہے، انہوں نے کہا کہ،آئی اے ایس، آئی پی ایس، سینٹرل سروس افسران کو منتخب کرنے کے لیے اب نفرتی ہندوتوا وادی سنیاسی یو پی ایس سی کے سربراہ ہوں گے۔ خدا ہندوستان کو بچائے۔سابق سینٹرل انفارمیشن کمشنر اور ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر یشو وردھن آزاد نے دی وائر کو بتایا، انہیں (دائیں بازو کے) نام نہاد لٹینز سے نفرت ہے۔ میں نے سونی کے ریکارڈ دیکھے ہیں اور پتہ چلا ہے کہ انہیں کچھ بین الاقوامی اعزازات ملے ہیں۔
سونی کی تقرری کو مختلف کمیشنوں اور مختلف مرکزی یونیورسٹیوں کے بھگوا کرن کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کیوں کہ بی جے پی حکومت نے اداروں پر کنٹرول کر لیا ہے۔دراصل یو پی ایس سی چیئرمین کے طور پر سونی کی ترقی نیوز چینلوں اور دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے ‘یو پی ایس سی جہاد’ کے جھوٹے دعووں کے بیچ ہوئی ہے۔ ان دعوؤں میں کہا جا رہا ہے کہ اقلیتی طبقہ کے لوگ سول سروسز میں اپنی تعداد بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح کے جھوٹے بیانیے ماضی میں بھی بے نقاب ہوتے رہے ہیں۔
یو پی ایس سی کی قیادت اس سے قبل نامور ماہرین تعلیم اور بیوروکریٹس کرتے رہے ہیں۔ یو پی ایس سی کے پہلے چیئرمین سر راس بارکر تھے، جو ایک ممتاز ماہر تعلیم اور برٹن کی رائل سوسائٹی آف ٹیچرز کے صدر تھے۔ انہوں نے 1926 سے 1932 تک انسٹی ٹیوٹ کی کمان سنبھالی۔منموہن سنگھ کی قیادت والی متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت کے تحت آخری چیئر مین ڈی پی اگروال تھے، جو اگست 2008 سے اگست 2014 تک اس عہدے پر فائز رہے۔
نریندر مودی حکومت کے تحت یو پی ایس سی کے سربراہ کے عہدے پر پہلی تقرری سابق آئی اے ایس افسر رجنی راجدان نے کی ہوئی ، جو محکمہ انتظامی اصلاحات اور عوامی شکایات کے سکریٹری کے طور پر ریٹائر ہوئی تھیں۔ان کے بعد دوسرے ماہر تعلیم ڈیوڈ آر سی ایم لیہہ تھے۔ وہ نارتھ ایسٹرن ہل یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر رہے اور پھر ایٹا نگر کی راجیو گاندھی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔
ان کے بعد مرکزی حکومت نے ونے متل کو یو پی ایس سی کا چیئرپرسن مقرر کیا۔ وہ ریلوے بورڈ کے سابق چیئرمین تھے۔ونے متل کے بعد اروند سکسینہ نے یہ عہدہ سنبھالا ۔ وہ ایک انڈین پوسٹل سروس آفیسر تھے، جنہوں نے دہلی کالج آف انجینئرنگ سے سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی)، نئی دہلی سے سسٹمز مینجمنٹ میں ایم ٹیک کی تعلیم حاصل کی تھی۔
(بشکریہ : دی وائر)